Sunday, July 5, 2009

بلوچستان عالمی طاقتوں کے نرغے میں

افغانستان میں اس وقت امریکہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں موجود ہیں جنہوں نے کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے ، بے گناہ شہری جدید حربی ساز و سامان سے لیس دنیا کی منظم آرمی کی قیادت اور انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں ،افغانستان امریکی مقبوضہ ہے مگر اس قبضہ گیری پر دنیا نے چپ سادھ لے رکھی ہے ، پاکستان کی دینی جماعتوں اور تحریک انصاف کو چھوڑ کر دیگر سیاسی جماعتوں نے اس جانب خاموشی اختیار کر رکھی ہے بزعم خیش قوم پرست جماعتیں نے دوغلا معیار قائم کر رکھا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعتیں خود کو افغانستان میں امریکہ کے ساتھ شریک اقتدار تصور کرتی ہیں، مغالطے اور فریب میں مبتلا ہیں حالانکہ امریکہ سے انہیں سوائے چند ٹکوں ،رسوائی ، شرمندگی اور ندامت کے کچھ نہیں ملے گا ، اگر واقعی ضمیر زندہ ہو ؟ ۔ امریکہ نے فاٹا میں عملاً جنگ شروع کر رکھی ہے ،امریکی جاسوس طیارے شہریوں کے چیتھڑے اُڑارہے ہیں لیکن یہ طبقات انگشت بہ لب ہیں ، اب اس جنگ کا دائرہ بلوچستان کے پشتون علاقوں تک پھیلانے کی منصوبہ گری کی جارہی ہے امریکہ کو عوامی تائید کا یقین دلایا جاچکا ہے ، اطلاعات محو گشت ہیں کہ سرکار نے اس ضمن میں ہوم ورک مکمل کرلیا ہے ممکن ہے کہ بہت جلد امریکی وفادار بلوچستان کو بھی میدان جنگ میں تبدیل کردیں اور یہ سارا الزام مذہبی جماعتوں کو دیدیا جائےگا حالانکہ مذہبی جماعتیں یہ باور کرارہی ہیںکہ صوبے میں طالبان کے تربیتی مراکز ہیں نہ ہی طالبان موجود ہیں مگر اس کے باوجود اگر محض امریکی خوشنودی ،خواہش اور حکم و ہدایت کے مطابق آپریشن کا آغاز کیا جائےگا تو اس کے نتائج ِبد کے لئے حکومت اور ان تمام جماعتوں اور قوتوں کو بھی تیار رہنا ہوگا اگر سابق سوویت یونین کے تالی چٹ یہ سوچتے ہوں گے کہ امریکہ ان کے سروں پر سونے کے تاج رکھے گا تو یہ ان کی خام خیالی اور نا فہمی ہے ،برعکس انجام یہ ہوگا کہ امریکہ کے یہ نئے یار اپنے لئے جائے پناہ ڈھونڈیں گے اور یہ ڈالر و دیگر منفعتیں ان کے کوئی کام نہ آسکیں گی ، یہ تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ہے کہ انگریزوں اور روسیوں کے بعد اب سرزمین افغانستان امریکی مقبوضہ ہے ، امریکہ سیاہ و سفید کا مالک ہے ۔افغانستان میں بیٹھ کر سب سے پہلا کام امریکہ کے پیش نظر پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے ، ملک کی افواج اور عوام کو اپنے ہی ملک کے اندر متصادم کرنا امریکی چال کا نتیجہ ہے اور اس عمل کو جس قدروسعت دی جائے گی اس قدر پاکستان دلدل میں دھنستا جائے گا ۔پشتون نسل پرست جماعتیں عملاً امریکہ کی دست و باز بنی ہوئی ہیں۔28جون کو کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل )کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے سے بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر حاصل خان بزنجو نے خوب توجہ دلائی ۔کاش کوئی اپنے مفادات سے ہٹ کر اجتماعی مفاد کو مقدم رکھ کر اس پہلو پرسوچے ۔ حاصل بزنجو نے کہا کہ ”آج دنیا کی تمام بڑی طاقتیں بلوچستان کے آس پاس بیٹھی ہوئی ہیں ( اشارہ افغانستان) یہ طاقتیں دنیا میں جہاں بھی گئی ہیں وہاں بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوا اور ان طاقتوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ افغانستان اور بلوچستان ہے چنانچہ اس وقت بلوچستان نیشنل پارٹی اورپشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں سوچنا ہوگا کہ ان حالات میں اپنی ذمہ دار کس طرح پوری کریں “ سینیٹر حاصل بزنجو بھانپ گئے کہ امریکہ خطے میں کن مذموم مقاصد کے لئے طاقت کے زور پر آکر بیٹھ گیا ، بزنجو صاحب نے اس پہلو کی اپنی فہم کے مطابق نشاندہی کردی ہے مگر یہ کافی نہیں ہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی جماعت نیشنل پارٹی صوبائی خود مختاری کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج کے خود خوفناک ارادوں اور منصوبوں کے خلاف تحریک چلا کر رائے عامہ ہموار کریں ۔ سامراج کی نگاہیں بلاشبہ بلوچستان کے وسائل اور ساحل پر ہیں ،سامراج بلوچستان کی تزویراتی (سٹرٹیجک)حیثیت اور اہمیت سے آگاہ ہے لہٰذا یہ خطہ سامراج کے لئے سونے کی چڑیا ہے ۔اس جانب بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل )کو بھی وسیع نظری سے غور کرنا ہوگا کیونکہ حکومت کے خلاف تو سڑکوں پر احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے مگر امریکہ اور نیٹو کے خلاف کسی کو ہونٹ ہلانے کی بھی جرات اور اجازت نہیں ہوگی ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا تو خیر امریکہ سے عقیدت اور اُنس ہے کیونکہ امریکہ نے ان کے مقبول افغانستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردیا ہے اور وہاں ایک جمہوری آئین بناکر دیدیا ہے ۔ بات یہ ہے کہ افغانستان امریکی کالونی و مقبوضہ ہے جس کے بعد آئین اور ترقی کوئی معنی نہیں رکھتا ، جمہور کی رائے افغانستان میں سرے سے وجود نہیں رکھتی ،ایک ملک جہاں چالیس ممالک کی افواج موجود ہو ں،جہاں بزور شمشیر چند افراد کو اقتدار کے مسند پر لاکر بٹھا دیا گیا ہو وہاں کونسا آئین اور کس طرح کی جمہوریت ہوتی ہے؟۔حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں عالمی بد معاشوں نے توپ و تفنگ سمیت آکر ڈھیرا ڈال دیا ہے جس کو افغان حکومت کہا جاتا ہے وہ دراصل ان بدمعاشوں کی خدمت پر مامور ہیں یہ حضرات چاپلوسی کے علاوہ کسی بھی مسئلے پر رائے زنی کی قدرت بھی نہیں رکھتے ۔اگر امریکہ افغانستان سے بے مراد نکلتا ہے تو یہ جمہوریت کے امین اور آئین کے پاسدار دور بین میں بھی نظر نہیں آئیں گے۔ لب لباب یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی خطے میں امریکی مفادات کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کے کام پر کاربند ہے ۔ بلوچ مسلح تنظیموں کو بھی بھارت اور امریکہ کے فریب سے بچنے کی ضرورت ہے کیونکہ سردست مفادات امریکہ کے ہیں اور امریکہ ہی جنگ لڑرہا ہے امریکہ نے اگر اس خطے میں پنجے گاڑ لئے تو پھر کسی کی بھی خیر نہیں ہوگی ، شائد حاصل بزنجو کے کہنے کا مقصد بھی یہی ہوتاہم نواب زادہ حیربیار مری نہ جانے کس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ امریکی کی غلامی کو بہتر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”کم از کم امریکہ تو ہمارا قومی تشخص ختم نہیں کرے گا جبکہ پنجاب ہمارے وسائل کو بھی لوٹ رہا ہے اور قومی تشخص کو بھی ملیا میٹ کررہا ہے جو خود امریکہ کا غلام ہے “۔ حیربیار مری کے اس جذباتی خیال پر صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اگر پنجاب بالادست اور وسائل لوٹ رہا ہے تو امریکہ اس سے بڑی برائی ہے امریکہ تو قوموں اور اس کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش بھی کرچکا ہے اور یہ عمل عراق میں اور ہمارے پڑوس افغانستان میں آج بھی جاری ہے ، ویتنام میں بدترین آرمی ایکشن،ہیروشیما اور نا گا ساگی پر ایٹم بم گرانے کا گھناﺅنا عمل نہیں بھولنا چاہیئے ۔ پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے مرہون منت امریکہ2001 سے اب تک افغانستان میں موجود ہے یہ تعاون حاصل نہ ہوتا تو شاید افغانستان کی صورتحال مختلف ہوتی اٹھارہ فروری2008 کے عام انتخابات کے نتیجے مییں بننے والی حکومت بھی اپنے پیش رو کی پالیسیوں کو جاری و ساری رکھنے پر مجبو رہے پاکستان اہم سپلائی لائن ہے امریکہ چاہتا ہے کہ کسی کا سہارا لئے بغیر خطے پر کنٹرول حاصل کرنے سے طویل منصوبوں کو کم مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے یقینا یہ امر مشکل ہے تاہم امریکہ پاکستان پر کنٹرول حاصل کرنے کا خواہاں ہے جس کے لئے پاکستانی فورسز کو ملک کے اندر الجھانا ان کے پیش نظر ضروری ہے کراچی چمن سپلائی لائن کی حفاظت کے لئے فکر مند ہے قلعہ بداللہ اور صوبے کے بلوچ علاقوں میں نیٹو کے لئے سازوسامان لے جانے والے ٹرالروں پر چند ایک حملے ہوچکے ہیں ،کون کررہا ہے اس بابت وثوق سے نہیں کہا جاسکتا تاہم اگر صوبے میں طالبان کی سرکوبی کے نام پر کسی قسم کی کارروائی شروع کی جاتی ہے تو لا محالہ اس کا شدید رد عمل پیدا ہوگا اور اس دوران کراچی چمن سپلائی لائن متاثر ہوگا اور اسی اثناءمیں امریکہ خود حملے شروع کردے گا ، انجام کیا ہوگا یہ معلوم نہیں ہے البتہ انتشار اور لاقانونیت کی عفریت پاکستان کے اس حصے کو بھی حصار میں لے لیگا اور اس کے آثار سرحدی علاقوں میں ہلمند کارروائی کے بعد کچھ کچھ دکھائی دینے لگے ہیں ۔ افغان صوبہ ہلمند میں اس وقت امریکہ چار ہزار آرمی کے ساتھ ویتنام کے بعد بڑی فوجی کارروائی میں مصروف ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ طالبان دفاعی حکمت عملی کے تحت پاک افغان سرحد کا رخ کریں گے۔اس خطرے اور خدشے کے پیش نظرپاکستان کے فوجی حکام نے افغانستان کے ساتھ نوشکی ، چاغی اور چمن میں اپنی سرحدیں سیل کردیں اور طالبان کا راستہ روکنے کے لئے اپنی دانست میں تیاریاں مکمل کرلی ہیں ۔طالبان کو روکنا سرحدوں کو بند کرنے سے نا ممکن ہے یہ ایک فطری بات ہے کہ سینکڑوں کلو میٹر طویل سرحد پر کسی کے آنے جانے اور نقل و حمل روکنا فوج کے بس کی بات نہیں ہے لہٰذ ا طالبان اگر اپنی دفاعی حکمت عملی کے تحت پاکستان کی حدود میں گھسنے کی کوشش کریں گے تو امریکہ ان علاقوں میں ان کی سرکوبی کے لئے کارروائی کا آغاز کرے گا ۔ یہ جو ایک عرصہ سے بلوچستان میں ڈرون حملوں کی باز گشت سنائی دے رہی ہے شاید آئند چند عرصے میں یقین میں بدل جائے ۔ امریکی جاسوس طیاروں کے بلوچستان کے اندر کارروائی کا اندیشہ موجود ہے ۔ادھر منگل کے روز(3جون2009) بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے سوراب میں میں نیٹو سپلائی کنٹینر پر حملے کا واقعہ پر ہمہ پہلو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس واقعہ میں چار افرا دہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے ۔ بم دھماکے کا واقعہ نیشنل ہائی وے پر موجود ایک ہوٹل کے باہر پیش آیا،سفید رنگ کی ایک آلٹو کار آکر رکی جس کے ساتھ ہی زور دار دھماکہ ہوا ، دھماکے سے ہوٹل ، چار دکانیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں تین ٹرالرز اور دو مزدور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ ڈی آئی جی خضدار غلام رسول ڈومکی نے اس دھماکے کو خودکش قرار دیا ، اخبارات میں بعض عینی شاہدین سے متعلق چھپا ہے کہ گاڑی آکر رک گئی اور ایک شخص گاڑی سے اتر کر موبائل فون پر بات کررہا تھا اور جونہی اس نے گاڑی کا دروازہ بند کردیا تو دھماکہ ہوا بہر حال ٹارگٹ نیٹو کے لئے سامان لے جانے والے ٹرالر ہی تھے۔ پیش ازیں بھی ان علاقوں میں ٹرالروں پر فائرنگ کے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور ایک ٹرالر ڈرائیور بھی ہلاک ہوا۔ پشتون قوم پرست کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان (مقبوضہ) میں مداخلت کررہا ہے تاکہ افغان حکومت کو غیر مستحکم کیا جاسکے ، حیرت ہے امریکہ افغانستان میں داخل ہے ان کے شر سے خواتین و بچوں سمیت کوئی بھی افغان محفوظ نہیں ہے اور الزام فقط پاکستان کو دیا جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان حریت پسند تنظیمیں مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ افغانستان میں عوامی احتجاج پر توجہ مرکوز کریں تاکہ افغانستان کے اندر غیر ملکی افواج کے خلاف عوام منظم ہو اور سیاسی پلیٹ فارم سے سرزمین کی آزادی کے لئے عوامی سطح پر جدوجہد کیا جائے اس عمل سے رفتہ رفتہ افغانستان کے طول و عرض میں افغان عوام نامرد امریکہ اور نیٹو افواج کی واپسی اور خو د مختار افغانستان کا مطالبہ زور پکڑے گا ۔ عوام کے احتجاج سے قابض قوتوں کے داشتاﺅں کاچہرہ بھی بے نقاب ہوگا اس وقت تو عالم یہ ہے کہ طالبان ہی کو ظالم اور درندے باور کرایا جارہا ہے اور امریکی قبضہ گیری اور خون آشامی پر دنیا عالم نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے لہٰذا افغان عوام کو ملک کی آزادی ، خود مختاری اور بقاءکے لئے کوچہ و بازار میں لکھنا چاہیئے، دنیا کی راست گو حریت پسند عوام افغانستان کی آواز میں ضرور آواز ملائیں گے۔

5 comments:

Unknown said...

بھائی آپ کا جذبہ قابل قدر ہے ۔ میں ذاتی طور پر اگرچہ ان تمام معاملات کو ایک دوسری نظر سے دیکھتا ہوں لیکن آپ کے تجزیہ میں اکثر نکات یقیناً صائب ہیں۔

Anonymous said...

Thanks you very much brother, good work and information you have provided. Only one thing that is not understood, why Balochistan wants partition/freedom from Pakistan?

اخوندزادہ جلال نورزئی said...

taaoo:
شکریہ اور بلاگ پر خوش آمدید
Anonymous:
شکریہ اور بلاگ پر خوش آمدید
آپ کاسوال انتہائی بنیادی ہے اور اہمیت کا حامل بھی ہے چنانچہ یہ موضوع قدرے تفصیل کا متقاضی ہے انشاء اللہ اس حوالے سے ضرور لکھوں گا۔

Jafar said...

بلاگستان میں‌ خوش آمدید۔۔۔
آپ کی تحریر سے چند سوالات ذہن میں آرہے ہیں۔۔۔
جن چند جماعتوں کا آپ نے ذکر کیا ہے، ان پر بھی اسی اشرافیہ کے نمائندے قابض ہیں جو اس ملک کے تمام مسائل کے ذمہ دار ہیں۔۔۔ اگر بلوچستان آزادی حاصل کربھی لے تو کیا یہ بلوچوں کو اپنے شکنجے سے آزاد کر دیں گے۔۔۔
جمہوریت ان تمام جماعتوں کا سلوگن ہے ۔۔۔ لیکن سرداری ہمیشہ موروثی ہوتی ہے۔۔۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ نیا سردار بھی قبیلے میں انتخاب کے ذریعے چنیں تاکہ ان کی جمہوریت بھی گراس روٹ لیول تک پہنچے۔۔۔
کیا غریب کی زندگی کا مقصد ان لوگوں کے مفادات کی آگ میں ایندھن کی طرح جلنا ہے؟

اخوندزادہ جلال نورزئی said...

شکریہ ۔ دیر سے جواب دینے پر معذرت
آپ نے بجا طور پر درست فرمایا ہے ۔ یہ ہمارا المیہ ہے کہ جو خود کو نجات دہندہ سمجھتا ہےوہی دراصل غاصب ہوتا ہے ۔ اگر کل کلاں بلوچستان آزاد ہوتا ہے تو کیا احتجاج ،محکومی اور محرومی کی باتیں ہونا بند ہوجائیں گی ، ہر گز نہیں بلکہ یہ حقیقت عیاں ہے کہ سینہ کوبی ، آہ و بکاہ کا یہ سلسلہ درماندہ اور مفلوک الحال بلوچستانیوں کا مقدر ہی ہوگا ۔
بات یہی ہے کہ ہم اب تک ایک صالح اور عمدہ نظام کے قیام سے نا آشنا ہے ،نظام کی درستگی اگر ہو تو نہیں خیال کہ کوئی محرومی کا گلہ کریں نہ ہی کوئی حاکم بن سکتا ہےجوخود کو فیصلوں میں آزاد سمجھتا ہوں

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔