Sunday, July 19, 2009

بلوچستان , غیر ملکی مداخلت

اخوندزادہ جلال نورزئی

jalal.nurzai@gmail.com
جب تک افغانستان پر سے امریکہ ، نیٹو اور بھارت کا منحوس سایہ نہیں ہٹتا اس وقت تک پاکستان بلکہ خطے میں ہمہ پہلو بہتری اور قرار نہیں آسکتا۔ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ملک کے طالع آزما حکمران طبقے کی غلام ذہنیت اور مفادات ہیں اور یہ حقیقت تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کے لئے جو جنگ اب تک لڑی جارہی ہے ،وہ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے لہٰذا اس پس منظر میں بھارت کے ”بہترین دماغ “پاکستان کے لئے مزید مشکلات مسائل سوچ رہے ہیں ،بلوچستان اس تناظر میں انتہائی اہم مورچہ ہے جہاں سے پاکستان پر کاری ضرب لگائی جائی جاسکتی ہے اور بلوچستان کی جانب سے حکومت کے لئے دشواریاں پیدا کی گئی ہیں چنانچہ ان حالات میں اگر حکمران طبقہ مخلص ہے تو کم از کم اغیار کے پنجوں سے بلوچستان کو نکال لیں کیونکہ علیحدگی پسندوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے لیکن اگر تاخیری حربوں اور لیت و لعل کا روایتی سلسلہ رہا تو آزاد بلوچستان والے کسی حد تک اپنے ارادوں کی تکمیل کے لئے آگے کا سفر کرسکتے ہیں ۔ بھارت نے بلا شبہ بلوچستان پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور مداخلت کررہا ہے مگر ہمارے کند ناتراش حکمران طبقہ سفارتی جنگ لڑ نہیں پارہے ۔البتہ وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ روز شرم الشیخ میں بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ سے بلوچستان کے حوالے سے بات کی ہے بقول وزیراعظم گیلانی کہ بھارتی وزیراعظم کو بلوچستان میں مداخلت کے شواہد پیش کردیئے گئے ہیں اور یہ یقین دلایا ہے کہ جلد ثبوت بھی پیش کردیئے جائیں گے۔اور افغان صدر حامد کرزئی (کٹھ پتلی) سے بھی بات کرلی ہے مزید برآں وزیر داخلہ رحمن ملک نے کابل میں حامد کرزئی سے اس تناظر میںملاقات کی جو کچھ ہم تک میڈیا کے ذریعے پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ رحمن ملک نے افغان صدر کو سوات اور فاٹا سے گرفتار افغان دہشتگردوں کے حوالے سے آگاہ کیا ہے اور بقول رحمن ملک کہ انہوں نے افغان صدر سے رحمن ملک کی حوالگی کا مطالبہ کیا جس پر افغان صدر نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یقین دہانیوں کی بجائے بروقت راست اقدام اٹھایا جائے جس تندہی کے ساتھ بھارت نے ممبئی واقعہ کے بعد اپنا سفارتی محاذ کھولا اور پوری دنیا میں پاکستانی مداخلت کا واویلا مچایا اور اپنی اس پروپیگنڈے میں بھارت کامیاب بھی رہا ہے تو کیوں نہ پاکستان حق بات کو جو ایک معروضی حقیقت ہے کہ دنیا کو سامنے پیش کریں اور بلوچستان میں اگر حکومت کے پاس شواہد او ر ثبوت موجود ہیں تو اس مسئلے کو بغیر کسی تاخیر کے عالمی سطح پر اٹھانا چاہیئے تاکہ افغانستان میں موجود قاض قوتوں کا تخریبی چہرہ عالم ِ انسانیت پر نمایاں ہوکیونکہ بالخصوص بھارت اپنے مذموم مقاصد اور عزائم کو بلوچستان میں پورا کرنا چاہتاہے دوسری طرف بلوچستان کے حوالے سے اب اسلام آباد کو سنجیدہ کا مظاہرہ کرنا چاہیئے کیونکہ بلوچستان کی سیاسی فضاءمفاہمت اور مصالحت کے لئے موافق ہے بس اس پر کام شروع کرنے کی ضرورت ہے قوم پرست جماعتیں شریک گفتگو ہوں گی وفاق اپنا اعتماد بحال کرے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) بلوچ قومی سیاست میں انتہائی اہم کردار کی حامل جماعت ہے ، جماعت کے سربراہ سردار اختر مینگل، بزرگ بلوچ قوم پرست رہنماءسردار عطاءاللہ مینگل کے فرزند ہیں عطاءاللہ مینگل کی شخصیت اور بلوچ سیاست میں اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے اندرون خانہ پارلیمانی سیاست کا ارادہ و فیصلہ کرلیا ہے ۔ بی این پی مینگل 26اگست2006 کو نواب بگٹی کی ہلاکت کے بعد اسمبلیوں سے باہر آگئی تھی ما بعد 18فروری2008ءکے عام انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا لہٰذا اب بی این پی نے دوبارہ انتخابی سیاست کی جانب مراجعت کا فیصلہ کرلیا یعنی سیاسی عمل اور گفت و شنید کا عمل اب تقویت اختیار کرے گا ۔اس طرح نیشنل پارٹی بھی قدر آور جماعت ہے اٹھارہ فروری کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا لیکن جلد ہی انتخابی سیاست کے مقاطعے کا فیصلہ واپس لے لیا حالیہ سینٹ کے الیکشن میں پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر حاصل بزنجو سینیٹر منتخب ہوئے۔نیشنل پارٹی کی سوچ معتدل ہے جسے بلوچ تعلیم یافتہ طبقے کی حمایت حاصل ہے حال ہی میں سینیٹر حاصل بزنجو نے آزاد بلوچستان کے نعرے کے ضمن میں اپنا موقف بیان کیا ان کا کہنا ہے کہ وہ گریٹر بلوچستان کے حامی نہیں ہے بلکہ ان کی جدوجہد صوبائی خود مختاری کے لئے ہے ۔حاصل بزنجو نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ وہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی اور نوابزادہ حیربیار مری کی سیاست کی حمایت نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ حاصل بزنجو نے 73ءکے آئین میں ترامیم کی بات کی ہے کہ نیشنل پارٹی اوردیگر بلوچ جماعتوں نے حکومت سے آئین میں ترامیم کا مطالبہ کیا تھا اگریہ ترامیم کرلی جاتی ہیں تو بلوچستان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اب حکومت کو آئین اور قانون کی زبان میں بات کرلینی چاہیئے ۔وہ آئین جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے من پسند ترامیم کر ڈالی ،جس میں جنرل ضیاءالحق مرحوم کے اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے ترامیم کیں ،وہ آئین جسے پرویز مشرف نے آمریت کو تحفظ دینے کے لئے اوپر نیچے کردیا تو اس میں صوبائی خود مختاری کے دیرینہ اور جائز مطالبے کے حوالے سے ترامیم پر سنجیدگی سے بیٹھ کر غورو خوض کی راہ میں کیا چیز مانع ہے ؟ حکومت یہ راستہ اختیار کرے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماءوزیراعلیٰ بلوچستان تو1940ءکی قرارداد کی بات کرتے ہیں اور مکمل صوبائی خودمختاری کے حصول کا اظہار انہوں نے متعدد بار کیا ہے ۔ اگر ایسا فی الواقعی ہوتاہے تو بہت جلد آزادی اور علیحدگی کی باتیں دم توڑ دیں گی اور بھارت شرمندہ رہ جائے گا ۔ اس حوالے سے گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کا کہنا بہت توجہ اور اہمیت کا حامل ہے جس میں گورنر نے علیحدگی کی سوچ کو یکسرمسترد کردیا ہے ۔


نواب ذوالفقار علی مگسی کے الفاظ من و عن اس طرح ہیں” ان (گورنر مگسی) کا مزاحمت کاروں سے کوئی رابطہ نہیں ہے ارو اگر کوئی شخص بلوچستان کوپاکستان سے الگ کرنے کا مطالبہ کررہا ہے تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟ کیا ان کو پشتون قوم ، ہزارہ قوم، آباد کار ، مگسی کا کسی اورقوم نے انہیں اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ علیحدگی کا مطالبہ کریں ۔ براہمداغ بگٹی اور حیربیار مری کے بیانات سے بلوچستان کبھی الگ نہیں ہوگاپاکستان اوربلوچستان لازم و ملزوم ہیں بلوچستان میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں ہے ایک یا دوافراد یا ایک جماعت کے کہنے سے بلوچستان الگ نہیں ہوسکتا‘‘۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی بھی کہہ چکے ہیں کہ” حکومت مفاہمتی عمل کے لئے امن وامان کو داﺅ پر نہیں لگاسکتی ، مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے والے مذاکرات شروع کریں ان سے ہر ممکن تعاون کیا جائیگا کیونکہ حکومت بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہتی ہے اور اس حوالے سے رضا ربانی کی قیادت میں قائم کمیٹی کام کررہی ہے اور جلد تمام فریقین کو اعتماد میں لیکر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی“۔ وزیراعلیٰ بلوچستان صوبے کے وسائل پر اختیار چاہتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ” ریکوڈک اور سیندک کے منصوبے بلوچستان کے حوالے کئے جائیں تاکہ انہیں ہم خود چلائیں‘‘ اسی طرح گوادر پورٹ پر اختیار حاصل کرنا وزیراعلیٰ کے پیش نظر ہے گویابات صوبائی خود مختاری کی ہے جو دینی یقینی نہیں بنائی جارہی ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ افغانستان کی صورتحال سے مربوط ہوچکا ہے۔افغانستان پر قابض قوتوں کی موجودگی تک شائد یہ ڈورالجھی ہی رہے افغانستان کے جنوبی صوبے ہمند میں امریکی آپریشن ”خنجر“ جاری ہے آپریشن میں پاکستان کی کمک بھی شامل ہے اور پاکستان خوفزدہ بھی ہے کہ کہیں مجاہدین سرحد پار کرکے پاکستانی حدود میں داخل نہ ہو۔ سیکورٹی فورسز نے پاک افغان سرحد پر اپنے طو رپر حفاظتی بندوبست آپریشن خنجر سے قبل ہی کرلیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قدر طویل اور دشوار گزار سرحد کو سیل کرکے پہرہ لگانا ان کی بس کی بات نہیں ہے ۔ وزیر داخلہ رحمن ملک فرماچکے ہیں کہ اسامہ بن لادن افغانستان کے علاقے کنڑ میں موجود ہیں اور وہیں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں آخر کیوں اسامہ بن لادن پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہا ہے اس پر وزیر داخلہ کو سوچنا چاہیئے ، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ امریکہ جو چاہے گا وزیر داخلہ اور ان کے بڑے چھوٹے دوست و مہربان وہیں کریں گے۔ وزیر داخلہ کو تشویش ہے کہ طالبان اسلحہ سمیت وزیرستان اور بلوچستان میں داخل ہورہے ہیں اور نیٹو سے کہا ہے کہ وہ پاک افغان سرحدپر اگر دیوار تعمیر نہیں کرسکتی تو کم از کم خاردار تار لگائے تاکہ جنگجو پاکستان میں داخل نہ ہوسکیں۔ دیوار کی تعمیر اور خار دار تار اب امریکہ اور نیٹو کے پیش نظر ضروری نہیں ہے طالبان اگر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو اس سے بھی انہیں کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قابض افواج چاہتی ہیں کہ طالبان یا دوسرے جنگجو پاکستان ہی میں داخل ہو ان کا مقصد پاکستانی افواج کے ذریعے ان کے خلاف کارروائی کرنا ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ یہ جنگ پاکستان کی حدود ہی میں جاری رہے۔

حکمران طبقہ مزید معذرت خواہانہ طرز عمل ترک کردیں ،قومی مفاد پر سخت رویہ اپنا ئیں پورے ملک میں بیرونی سازشیں ہورہی ہیں اور بلوچستان میں کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں کام کررہی ہیں افغانستان سے ان کے ذریعے اسلحہ اور دیگر سازو سامان بدامنی پھیلانے کے لئے پہنچایا جارہا ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ جس کل جماعتی کانفرنس نوید سنائی جارہی ہے اسے جلد طلب کیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ کانفرنس میں کم از کم بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور نیشنل پارٹی کی موجودگی ضرور ہونی چاہیئے اور مذاکرات کا عمل اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک کہ فریقین کسی حتمی نتیجے پر پہنچ نہیںپاتے۔

0 comments:

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔