Wednesday, October 28, 2009

سیستان حملہ، ایران کی قبل از وقت پاکستان پر الزام تراشی


ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی شاطر اور دغا باز قوتیں جن کا سرخیل دو ر رواں میں یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ ہے ،کو افغانستان میں واضح شکست کا سامنا ہے تاہم جاتے جاتے امریکی نیت کا فطور یہ بتارہا ہے کہ وہ پاکستان کو برباد کرنے کا تہیہ کر چکا ہے ملک کے اندر تو پاکستان کے دوستوں کو دشمن بنالیا گیا ہے سردست امریکہ پاکستان کو خطے میں تنہاءکرنے کی پالیسی پر بھی گامزن ہے ۔ممکن ہے یہ رائے درست نہ ہوتا تاہم گمان یہ کہتا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی مکروہ سازشیں ہورہی ہیں ۔ سازشوں کے اس جال میں ایک مثال اتوار اٹھارہ اکتوبر کو ایران کے صوبے سیستان کے شہر زاہدان میں پاسداران انقلاب اور مقامی عمائدین کے مجلس میں خودکش بم دھماکہ کی پیش کی جاسکتی ہے جس میں چالیس سے زائد افراد بشمول پاسداران انقلاب کے اعلیٰ کمانڈرز ہلاک ہوئے ، اس حملے میں مقامی افراد بھی ہلاک ہوگئے گویا ان جان لیوا حملوں کے بعد فوراً بعد عوامی اورانقلابی ایرانی حکومت پاکستان پر برس پڑی اور چند ساعتوں کے اندر اندر امریکہ و برطانیہ سمیت پاکستان کی انٹیلی جنس اداروں کو مورد الزام ٹھہرایا ۔ مذکورہ ہلاکت خیز واقعہ کی ذمہ داری جنداللہ نامی عسکریت پسند تنظیم نے بلا توقف قبول کرلی تھی مگر پاکستان کے حوالے سے ایرانی حکومت کو ذرا تحمل اور محتاط رویہ اپنانا چاہیئے تھا ۔ ایران ایک ذمہ دار ملک ہے اور انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ ہی زیب دیتا ہے یہ حقیقت منظم اور عوامی ایرانی حکومت پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی طرح ایران کی سرحدیں بھی اس طرح نہیں کہ ان پر ہمہ وقت پہرہ لگایا جاسکے ، پاکستان خاص کر بلوچستان کا افغانستان کے ساتھ طویل سرحدی جڑاﺅ کے باعث بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے نیٹو اور افغان حکومت یہ الزام لگاتی ہے کہ پاکستان طالبان کو سپورٹ کررہا ہے اور سرحد پار کارروائیوں کے لئے بھیج رہا ہے اسی طرح انہیں طویل سرحدی پٹی کو بلوچ مزاحمت کار اپنےمقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں یعنی بلوچ عسکریت پسند آجاسکتے ہیں۔


یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان اور کوئٹہ میں تخریبی کارروائیاں معمول کا حصہ بن چکا ہے چنانچہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسی المیہ اور مشکل سے مملکت ایران کو بھی سامنا ہے ایک جانب افغان سرحد اور دوسری جانب بلوچستان کے ساتھ طویل سرحد کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ بلوچستان کے اضلاع چاغی، واشک، پنجگوراور تربت کے علاوہ پانی کے ذریعے گوادر سے بھی سرحد لگتی ہے اور یہ وسیع کے رقبے کے حامل اضلاع ہیں ۔دراصل جنداللہ کے کارندے پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں کا انتخاب کرتے ہیں دوسری بات جو واقعی ناقابل فہم اور پیچیدہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان اور ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے سرحد پر آباد بلوچ دوہری شہریت کے حامل ہے اگر شہریت نا بھی ہو تو سرحد کے آر پار آنا جانا ان لوگوں کے لئے کوئی مشکل عمل نہیں ہے دونوں اطراف کی آبادیاں باہمی رشتوں میں منسلک ہے ، خونی رشتے ہیں تہذیبی ارتباط موجود ہے حالانکہ ایران نے 2007 میں دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر سرحد پر 700کلو میٹر لمبی کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرلی جس پر بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے تحفظ کا اظہار بھی کیا ۔گویا اس تناظر میں یہ دعویٰ قبل از وقت ہے کہ پاکستان بھی ایران میں عدم استحکام کا خواہاں ہے اگر ایسا کچھ ہے تو ایرانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان وجوہات اور محرکات کو بھی بروقت سامنے لاتی کہ پاکستان کیوں ایک آزاد ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے ۔ اگر چہ اس نوعیت کے الزامات ایران پر عوامی سطح پر لگ چکے ہیں کہ ایران پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے لیکن کوئی سنجیدہ فکر انسان اسے درست تسلیم نہیں کرے گا ۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان کی عناد میں مبتلا ایران نے بغض معاویہ میں شمالی اتحاد کو گلے رکھا تھا یہاں تک کے نائن الیون کے واقعہ کے بعد ایران بھی امریکہ کے ذریعے طالبان حکومت کے خاتمے اور انہیں ملیا میٹ کرنے کا خواہاں تھا بلکہ افغانستان پر امریکی کود تا میں جہاں پاکستان نے تابعداری کا مظاہرہ کیا وہیں ایران نے شمالی اتحاد کی افغان قوتوں اور تنظیموں کو ہر لحاظ سے کمک فراہم کیا ´افغانستان کے آج کی صورتحال میں ایران کی کوتاہیاں اور طالبان سے ازلی عناد کا بھی شامل ہے ۔غرضیکہ امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرلیا اور خطے میں مستقل پریشانی بے اطمینانی نے جڑ پکڑ لیا ۔یہی امریکہ اور برطانیہ بھوکے مگر مچھ کی طرح ایران کو بھی تاڑ رہا ہے لہٰذا اس پس منظر میں جنداللہ نامی عسکریت پسند تنظیم کی تار و پود اور کڑیاں پوشیدہ نہیں ہے جس کا اظہار جنداللہ کے سربراہ مالک ریکی خود کرچکے ہیں کہ ان کی امریکہ سمیت کئی ممالک کے سفراءسے ملاقاتیں ہوچکی ہیں ان کا کہنا ہے کہ سیاسی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے رابطے ضروری ہیں ۔عبدالمالک ریکی کا افغانستان آنا جانا رہتا ہے ، زاہدان بم دھماکے کے بعد پاکستان میں ایران کے سفیر ماشاءاللہ شاکری نے یہ الزام عائد کیا کہ جنداللہ کا سرغنہ عبدالمالک ریکی پاکستان میں ہے اسی طرح ایران نے پاکستانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے خودکش حملے پر احتجاج کیا یہی نہیں بلکہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے یہاں تک کہا کہ انقلابی گارڈز پر خودکش حملہ کرنے والوں کو پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کی معاونت حاصل تھی ساتھ احمدی نژاد نے مطالبہ کیا کہ اس حملے میں جنداللہ کے مددگاروں کو ایران کے حوالے کیا جائے اور ملزمان کو پکڑنے میں تہران کی مدد بھی کیا جائے اور ملزمان کو پکڑنے میں تہران کی مدد بھی کی جائے نیز ایران حکومت نے پاکستان سے از خود کارروائی کرنے کی اجازت بھی طلب کرلی ہے ۔ دریں اثناءترجمان دفتر خارجہ بلکہ صدر آصف علی زرداری نے ایرانی ہم منصب کو اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور یہ باور کرایا کہ پاکستانی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور نہ ہی ہونے دیں گے ۔ دفتر خارجہ نے قرار دیا کہ کچھ عناصر پاک ایران تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے اس حملے کے بعد کہا ہے کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان کے عوام اور ایرانی حکومت اور وہاں کی عوام کے درمیان نہایت گہرے، تاریخی اور ثقافتی تعلقات قائم ہیں جو صدیوں پر محیط ہیں اور ایران و پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف مربوط لائحہ عمل طے کرنا چاہیئے .ایران کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ جنداللہ کو پاکستان یا اس کے اداروں کا تعاون حاصل ہے البتہ یہ کہنا غلط بھی نہیں ہے کہ جنداللہ کا سربراہ پاکستان میں موجود ہے یا موجود رہا ہے یہ حقیقت ہے کہ عبدالمالک ریکی صوبائی دار الحکومت کوئٹہ تک آتے رہے ہیں اب یہ حکومت اور اداروں کی ناکامی ہے کہ ان کی سرزمین پر ایسے لوگ پاﺅں رکھتے ہیں ۔ جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریکی کو امریکہ برطانیہ اور افغان پھٹو حکومت کا تعاون حاصل ہے اور یہ امر ایران سے مخفی نہیں ہے ۔


یاد رہے کہ سال 2007کے ماہ اگست میں پاکستانی فورسز نے ایران سے ملحقہ بلوچستان کے علاقے مند کے پہاڑوں میں کارروائی کرکے اکیس سرکاری اہلکاروں کو طویل مقابلے کے بعد بحفاظت بازیاب کرالیا تھا ۔ ان افراد کو مند سے پچاس کلو میٹر دور ایران کے سرحدی صوبے سیستان وبلوچستان کے شہر چاہ بہار کے قریب سے اغواءکرلیا گیا تھا جن میں دو ایرانی سیکورٹی اہلکار بھی تھے ان دو اہلکاروں کو اغواءکاروں نے قتل کردیا تھا تاہم دیگر مغویوں کو پاکستان کی حدود میں لے آئیں ۔ اس واقعہ کے بعد ایرانی حکومت نے حکومت پاکستان بروقت اطلاع دی جس پرسیکورٹی فورسز نے فوری طور پر اغواءکاروں کے خلاف کارروائی شروع کردی اس طرح مقابلے کے بعد مغویوں کو بازیاب چھڑالیا گیا اور17 اغواءکاروں کو حراست میں لے لیا ان افراد سے بھاری مقدار میں اسلحہ وگولہ بارود برآمد کیا گیا ۔ تفتیش کے بعد ملزمان نے جنداللہ سے تعلق کا انکشاف کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ ان ملزمان میں ایک شخص عبدالمالک ریکی کا بھائی بھی تھا بعد ازاں حکومت پاکستان نے نہ صرف مغویوں کو با عزت طور پر ایرانی حکومت کے حوالے کردیا جو اپنے ملک بحفاظت پہنچ گئے بلکہ ملزمان کو بھی ایرانی حکومت کی تحویل میں دیا لہٰذا یہ تعاون بظاہر یہ بتاتا ہے کہ پاکستان ہر گز عسکریت پسندوں کو ایران کے خلاف استعمال نہیں کررہا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ مذکورہ کارروائی عمل میں نہ لائی جاتی اور نہ ہی ایرانی سرکاری اہلکاروں اور ملزمان کو حکومت ایران کے حوالے کیا جاتا ۔ نیز عبدالمالک ریکی کے بھائی عبدالحمید ریکی کو بھی گزشتہ سال جون میں ایران کے حوالے کردیا تھا جو کہ اب بھی ایران کی تحویل میں ہے ۔ عبدالمالک ریکی کے بھائی کے لئے کوئٹہ اور صوبے کے مختلف علاقوں میں بلوچ نیشنل فرنٹ نے تحریل چلائی ان کے اصل نام کی بجائے اسے غلام حیدر رئیسانی کے نام سے پکارتے تھے اپنے مظاہروں میں حکومت پاکستان پر الزام لگاتے تھے کہ وہ بلوچستان کے شہری کو غیر قانونی طور پر ایران کے حوالے کررہا ہے اور ساتھ ان کا اب تک الزام یہ بھی ہے کہ ایرانی بلوچوں کے ساتھ ظلم روا رکھا جارہا ہے ، انہیں حقوق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں سولی پر لٹکایا جاتا ہے ۔ بلوچ نیشنل فرنٹ اور عبدالمالک ریکی کے تعلق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ پہلو بھی مد نظر رہے کہ عبدالمالک ریکی اور بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان رابطہ کی بازگشت بھی سنی گئی ہے بلکہ ایک مرتبہ تو عبدالمالک ریکی اور بعض بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے ایران و پاکستان کے بلوچوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی باتیں بھی سنی گئیں یہ بات غور طلب ہے کہ قوم پرست خیالات کے حامل تنظیموں اور مذہب کی پرچارک تنظیم کے سربراہ کے تعلقات تعلقات کار کس نوعیت کے ہیں ۔ یقینی بات ہے کہ بلوچستان کے عسکریت پسندوں کو افغانستان سے کمک چل رہی ہے ،بھلے وہ انکار کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کیونکہ اس کے بغیر ان کی مسلح مزاحمتی تحریک چل نہیں سکے گی ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایران حکومت اپنے اس الزام سے رجوع کریں جو انہوں نے حکومت پاکستان پر عائد کیا ہے کہ مالک ریکی کو ان کی سرپرستی حاصل ہے ۔


سطور بالا میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ مالک ریکی پاکستان میں ضرورموجود ہوں گے جس کی تفصیل بیان کردی گئی ہے تاہم اختصار کے ساتھ یہ بیان کرنا بھیضروری ہے کہ مالک ریکی کی پیدائش بلوچستان کے ایران سرحد سے ملحقہ ضلع واشک کیتحصیل ماشکیل میں ہوئی ، ریکی قبیلے سے ان کا تعلق ہے جو کہ پاکستان اور ایران میںآباد ایک نمایاں بلوچ قبیلہ ہے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ایران کے شہر زاہدان اوربعد ازاں کراچی کے مختلف دینی مدارس میں حاصل کی ہے ۔مالک ریکی نے2002ءمیں اہلسنتکے حقوق کے لئے ایرانی حکومت سے مطالبات منوانے کے لئے سیاسی جدوجہد شروع کی اورجنداللہ کے نام سے تنظیم کی داغ بیل ڈال دی جس کے بعد نامعلوم وجوہات کی بناءپر2003ءمیں ایرانی حکومت کے خلاف عسکری جدوجہد شروع کی۔


یہ تحریر تصویری شکل میں بھی پوسٹ کردی ہے