Saturday, August 7, 2010

بلوچستان میں خونی کھیل کا نیا رخ

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور نیشنل پارٹی بلوچستان کی دو بڑی قوم پرست جماعتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کی سیاسی جدوجہد سے انکار ممکن نہیں ہے۔ وفاق سے تمام تر گلوں شکووں کے باوجود آئینی و جمہوری جدوجہد ان کی سیاست کا محور رہی ہے۔ صوبے میں مسلح تنظیموں نے جڑیں مضبوط کرلی ہیں، ان حالات میں مذکورہ جماعتیں اپنے پروگرام اور جدوجہد سے دستکش نہیں ہوئیں تاآنکہ صوبے میں جاری ٹارگٹ کلنگ نے انہیں بھی زد پر لے لیا۔ حبیب جالب ایڈووکیٹ اور مولا بخش دشتی قتل ہوئی، ان واقعات کی درپردہ حقیقت سے دونوں جماعتیں بخوبی آگاہ ہیں کہ کون سی قوتیں رہنماﺅں کے قتل میں ملوث ہیں۔ بلوچستان عام شہریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں اور رہنماﺅں کا مقتل بنا ہوا ہے۔ بلوچ مسلح تنظیمیں اپنی دانست میں گوریلا جنگ کے ذریعے صوبے کی آزادی کے لئے کمر کس چکی ہیں۔ اسی طرح نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل سیاسی جدوجہد کے ذریعے صوبے اور عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے مبارزہ کررہی ہیں۔ ان حالات میں دونوں جماعتوں کو اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہیے کہ بلوچ مسلح یا سخت گیر جماعتیں انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں، لہٰذا یا تو مسلح و سخت گیر بلوچ جماعتوں کا دباﺅ قبول کرنا ہوگا، یا ان حالات میں ڈٹ کر اپنی سوچ کی ترویج اور سیاسی جدوجہد کے لئے کمربستہ ہونا پڑے گا، کیونکہ یہ لمحہ ان کی سیاسی موت اور زندگی کا ہے۔ اب ان کی بقاءکے لئے ضروری ہے کہ صوبے میں ہر قسم کی زیادتیوں اور قتل و فساد کے خلاف آواز اٹھائیں، کیونکہ مارنے والے نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کو بھی معصوم نہیں سمجھتے اور ریاست کے گناہوں میں انہیں برابر کا شریک سمجھ رہے ہیں۔ خصوصاً بی این پی مینگل کو حبیب جالب ایڈووکیٹ کے قتل میں ملوث ہاتھوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ آنے والے دن آزمائش کے ہوں گے اور آزمائش کی یہ گھڑی دونوں جماعتوں کا امتحان بھی ہے۔ ۔
اب تک بلوچستان میں جس فوجی آپریشن کا واویلا ہورہا ہی، اس کی صحت سے نہ صرف حکومت بلکہ سیاسی جماعتیں بھی انکار کرتی ہیں۔ شاید اب مسلح تنظیموں کے تربیتی کیمپوں اور کمین گاہوں کو تباہ کرنے کی خاطر سرکار کوئی قدم اٹھائے۔ یہ اشارہ رحمان ملک کی27جولائی کو سینیٹ میں حبیب جالب ایڈووکیٹ اور مولا بخش دشتی کے قتل پر تعزیتی قرارداد پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب اور سوال و جواب دیتے ہوئے ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں خون بہہ رہا ہی، اس میں بلوچستان کے مقامی افراد کے ساتھ غیر ملکی ہاتھ بھی ملوث ہیں۔ رحمان ملک نے اشارتاً کہا کہ پاکستان کے جھنڈے کو جب آگ لگتی ہے تو اس کی مذمت کیوں نہیں کی جاتی؟ رحمان ملک نے بتایا کہ رواں سال جنوری سے جولائی تک 3 فوجی افسران، 27 پولیس اہلکار، 55 پنجابی افراد، 21 پختون، 12سندھی اور 112دوسرے افراد سمیت 252 افراد قتل ہوچکے ہیں۔ رحمان ملک نے یہ انکشاف کیا کہ بلوچستان میں دستی بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے خوف سے ایک لاکھ سے زائد آبادکار نقل مکانی کرچکے ہیں۔ رحمان ملک نے ایوان کو بتایا کہ نیشنل پارٹی کے رہنماءمولا بخش دشتی کے قتل میں ڈاکٹر اللہ نذر گروپ ملوث ہے۔ یہی تاثر نیشنل پارٹی نے بھی ظاہر کیا تھا۔ واضح ہو کہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں جنہوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد ملازمت کی خواہش کو دل سے نکال دیا اور قومی جدوجہد کی راہ اپنالی۔ وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین رہے ہیں، سخت گیر خیالات کے مالک ہیں اور مسلح جدوجہد کے ذریعے بلوچستان کی آزادی ان کا مقصود ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ سیاست میں ایک گمنام کردار رہے ہیں، تاہم 17مارچ 2005ءکو کراچی سے چند دیگر بلوچ سیاسی کارکنوں کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور چند ماہ غائب رہنے کے بعد علیحدہ شناخت کے ساتھ منظرعام پر آگئے۔ انہیں دورانِ اسیری تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا چنانچہ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں دو ماہ تشویشناک حالت میں زیرعلاج رہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر اللہ نذر کو تربت اور آواران میں ایف سی کے قلعوں پر راکٹ داغنے کے الزام میں پولیس نے حراست میں لے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا اور انہیں تربت منتقل کردیا۔ جون 2006ءمیں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا جس کے بعد ڈاکٹر اللہ نذر کسی پیشی پر حاضر نہ ہوئے اور پہاڑوں کی راہ لی، اور آج بلوچستان میں مسلح کارروائیوں میں نمایاں مقام کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر اینٹی سردار سوچ کے مالک بھی ہیں۔ سینیٹ میں اپنے خطاب میں وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ بلوچ ارکانِ پارلیمنٹ کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ رحمان ملک نے دعویٰ کیا کہ وہ بلوچستان کے واقعات میں خفیہ ہاتھ کو بے نقاب کرنے اور ان کے کیمپوں اور تربیت گاہوں کی تفصیلات فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ بلوچستان میں چار نجی فوجیں ہیں: بلوچستان لبریشن آرمی جسے حیربیار مری چلا رہے ہیں، بلوچستان ری پبلکن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ جس کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر ہیں اور لشکرِ بلوچستان جاوید مینگل کی ہے جو سردار اختر جان مینگل کے بھائی ہیں۔ باقی مسلح تنظیموں کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں لیکن سردار اختر مینگل بلوچستان کے قدآور سیاسی رہنماءسردار عطاءاللہ مینگل کے صاحبزادے ہیں۔ سردار عطاءاللہ مینگل نے ساری زندگی سیاسی جدوجہد کے ہتھیار کو استعمال کیا ہی، چنانچہ ایک جمہوری سیاسی جماعت اگر مسلح تنظیم سے ناتا رکھتی ہے تو یہ افسوسناک اور تشویشناک بات ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کو لشکر بلوچستان سے متعلق وضاحت کرنی چاہیے۔ اگر واقعتا لشکرِ بلوچستان، بلوچستان نیشنل پارٹی کا مسلح ونگ ہے تو پھر بات واضح ہے کہ وہ بھی تشدد، مرو اور مارو کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ بی این پی کے مرکزی سیکریٹری جنرل حبیب جالب کے قتل کے بعد لشکر بلوچستان کا دیگر مسلح تنظیموں کے برعکس بیان بھی معنی خیز ہے جس میں انہوں نے حبیب جالب کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ پیر 26 جولائی کو سینیٹ میں حبیب جالب کے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد منظور ہوئی۔ اس موقع پر چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی و مشیر سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ”بلوچستان میں اعتماد کا فقدان ہی، جب تک اعتماد بحال نہیں ہوگا اور بلوچستان کو فائدہ نہیں پہنچایا جائے گا، وہ مطمئن نہیں ہوں گے“۔ نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ’بلوچستان حکومت لوٹ کھسوٹ میں لگی ہوئی ہی، اغواءبرائے تاوان کے نشانات وزراءکے گھروں تک جارہے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے امیر سینیٹر مولانا محمد خان شیرانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”انسداد دہشت گردی کی پالیسی سے دہشت گردی اور انتہاءپسندی کو فروغ ملا ہی، حکومت اس پالیسی کے حوالے سے اپنی کارکردگی سے قوم کو آگاہ کری، پالیسی کی تشکیل سے قبل اور بعد کے حالات کا تقابلی جائزہ پیش کیا جائے۔ بلوچستان میں فورسز کی موجودگی میں حالات خراب ہورہے ہیں۔ مجرم گرفتار بھی ہوتے ہیں تو خفیہ ہاتھ انہیں چھڑا کر لے جاتے ہیں۔ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے اجرت دے رہا ہے یہ جنگ اسی کی ہے۔“

دوسری جانب صوبے میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہی، دستی بم حملے بھی کئے جارہے ہیں۔ 23 جولائی کو جیل روڈ پر جیل کالونی میں رہائش پذیر اہلکار بہرام خان کے گھر پر بم پھینکا گیا جس سے وہ اور اس کی بیٹی زخمی ہوگئی۔ 27 جولائی کو قلات میں پولیس تھانہ قلات کے ایڈیشنل ایس ایچ او نعمت اللہ شاہوانی کو موٹر سائیکل سواروں نے قتل کردیا۔29 جولائی کو ریلوے ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ایک سرکاری ملازم کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا۔ اسی روز بروری روڈ پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے مستری حبیب اللہ کو قتل کردیا گیا۔ فائرنگ سے اس کا ساتھی ممتاز شدید زخمی ہوا۔ اسی طرح 30 جولائی کو دن دہاڑے سرکی روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی پولیس تھانے کے اہلکار ذوالفقار نقوی کو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ ان حالات میں غور طلب اور تشویشناک پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے پراسرار انداز میں قتل کے بعد لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔ جولائی میں نجیب لانگو، اشفاق ملازئی اور فاروق مینگل سمیت پانچ افراد قتل ہوئے ہیں، یہ افراد چند ماہ قبل لاپتا ہوئے تھے جن کے ورثاءکا یہ دعویٰ ہے کہ انہیں سیکورٹی فورسز نے اٹھایا تھا۔ مندرجہ بالا تینوں افراد کی ذمہ داری سپاہ شہدائے بلوچستان نامی تنظیم نے یہ کہہ کر قبول کی ہے کہ ان کا تعلق بلوچ مسلح تنظیموں سے تھا جو ہندو اور یہودی آقاﺅں کی ایماءپر بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنارہے تھے۔ ۔

ان ہلاکتوں پر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سمیت دیگر عسکریت پسندتنظیموں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان افراد کا تعلق فی الواقعی مسلح تنظیموں سے تھا ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قتل کے واقعات میں عسکریت پسندوں سے تعلق کو بنیاد بناکر ریاستی ادارے ملوث ہیں یا مضبوط قبائلی گروہ ؟ جومختلف اوقات میں متاثر ہوتے آرہے ہیں ۔گویا بلوچستان میں جاری خونی جنگ اب رخ اختیار کررہی ہے ۔اس صورتحال کو رحمان ملک کے اس بات سے خوب سمجھا جاسکتا ہے کہ ”طالبان کی شکست کی طرح حکومت یہی کامیابی بلوچستان میں بھی حاصل کر کے رہے گی“۔ ۔

1 comments:

شازل said...

آپ نے بہت اچھا تجزیہ پیش کیا
میں نے بہت غور سے ایک ایک لفظ کو پڑھا تاکہ کوئی ابہام نہ رہے
میں نے بھی بلوچستان کے بہت سفر کیے ہیں اور کچھ اپنی رائے بھی بنائی ہے
امید ہے کہ آپ ائیندہ بھی اس پر لکھتے رہیں گے

Post a Comment

اردو میں تبصرہ پوسٹ کرنے کے لیے ذیل کے اردو ایڈیٹر میں تبصرہ لکھ کر اسے تبصروں کے خانے میں کاپی پیسٹ کر دیں۔