Saturday, August 7, 2010

بلوچستان میں خونی کھیل کا نیا رخ

بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور نیشنل پارٹی بلوچستان کی دو بڑی قوم پرست جماعتیں ہیں۔ دونوں جماعتوں کی سیاسی جدوجہد سے انکار ممکن نہیں ہے۔ وفاق سے تمام تر گلوں شکووں کے باوجود آئینی و جمہوری جدوجہد ان کی سیاست کا محور رہی ہے۔ صوبے میں مسلح تنظیموں نے جڑیں مضبوط کرلی ہیں، ان حالات میں مذکورہ جماعتیں اپنے پروگرام اور جدوجہد سے دستکش نہیں ہوئیں تاآنکہ صوبے میں جاری ٹارگٹ کلنگ نے انہیں بھی زد پر لے لیا۔ حبیب جالب ایڈووکیٹ اور مولا بخش دشتی قتل ہوئی، ان واقعات کی درپردہ حقیقت سے دونوں جماعتیں بخوبی آگاہ ہیں کہ کون سی قوتیں رہنماﺅں کے قتل میں ملوث ہیں۔ بلوچستان عام شہریوں کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنوں اور رہنماﺅں کا مقتل بنا ہوا ہے۔ بلوچ مسلح تنظیمیں اپنی دانست میں گوریلا جنگ کے ذریعے صوبے کی آزادی کے لئے کمر کس چکی ہیں۔ اسی طرح نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل سیاسی جدوجہد کے ذریعے صوبے اور عوام کے حقوق کے تحفظ کے لئے مبارزہ کررہی ہیں۔ ان حالات میں دونوں جماعتوں کو اس حقیقت کا ادراک کرلینا چاہیے کہ بلوچ مسلح یا سخت گیر جماعتیں انہیں قبول کرنے پر آمادہ نہیں، لہٰذا یا تو مسلح و سخت گیر بلوچ جماعتوں کا دباﺅ قبول کرنا ہوگا، یا ان حالات میں ڈٹ کر اپنی سوچ کی ترویج اور سیاسی جدوجہد کے لئے کمربستہ ہونا پڑے گا، کیونکہ یہ لمحہ ان کی سیاسی موت اور زندگی کا ہے۔ اب ان کی بقاءکے لئے ضروری ہے کہ صوبے میں ہر قسم کی زیادتیوں اور قتل و فساد کے خلاف آواز اٹھائیں، کیونکہ مارنے والے نیشنل پارٹی اور بی این پی مینگل کو بھی معصوم نہیں سمجھتے اور ریاست کے گناہوں میں انہیں برابر کا شریک سمجھ رہے ہیں۔ خصوصاً بی این پی مینگل کو حبیب جالب ایڈووکیٹ کے قتل میں ملوث ہاتھوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔ یاد رہے کہ آنے والے دن آزمائش کے ہوں گے اور آزمائش کی یہ گھڑی دونوں جماعتوں کا امتحان بھی ہے۔ ۔
اب تک بلوچستان میں جس فوجی آپریشن کا واویلا ہورہا ہی، اس کی صحت سے نہ صرف حکومت بلکہ سیاسی جماعتیں بھی انکار کرتی ہیں۔ شاید اب مسلح تنظیموں کے تربیتی کیمپوں اور کمین گاہوں کو تباہ کرنے کی خاطر سرکار کوئی قدم اٹھائے۔ یہ اشارہ رحمان ملک کی27جولائی کو سینیٹ میں حبیب جالب ایڈووکیٹ اور مولا بخش دشتی کے قتل پر تعزیتی قرارداد پر بحث سمیٹتے ہوئے خطاب اور سوال و جواب دیتے ہوئے ملا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان میں خون بہہ رہا ہی، اس میں بلوچستان کے مقامی افراد کے ساتھ غیر ملکی ہاتھ بھی ملوث ہیں۔ رحمان ملک نے اشارتاً کہا کہ پاکستان کے جھنڈے کو جب آگ لگتی ہے تو اس کی مذمت کیوں نہیں کی جاتی؟ رحمان ملک نے بتایا کہ رواں سال جنوری سے جولائی تک 3 فوجی افسران، 27 پولیس اہلکار، 55 پنجابی افراد، 21 پختون، 12سندھی اور 112دوسرے افراد سمیت 252 افراد قتل ہوچکے ہیں۔ رحمان ملک نے یہ انکشاف کیا کہ بلوچستان میں دستی بم حملوں اور ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے خوف سے ایک لاکھ سے زائد آبادکار نقل مکانی کرچکے ہیں۔ رحمان ملک نے ایوان کو بتایا کہ نیشنل پارٹی کے رہنماءمولا بخش دشتی کے قتل میں ڈاکٹر اللہ نذر گروپ ملوث ہے۔ یہی تاثر نیشنل پارٹی نے بھی ظاہر کیا تھا۔ واضح ہو کہ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچستان لبریشن فرنٹ کے سربراہ ہیں۔ وہ پیشے کے اعتبار سے ڈاکٹر ہیں جنہوں نے تعلیم سے فراغت کے بعد ملازمت کی خواہش کو دل سے نکال دیا اور قومی جدوجہد کی راہ اپنالی۔ وہ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے چیئرمین رہے ہیں، سخت گیر خیالات کے مالک ہیں اور مسلح جدوجہد کے ذریعے بلوچستان کی آزادی ان کا مقصود ہے۔ ڈاکٹر اللہ نذر بلوچ سیاست میں ایک گمنام کردار رہے ہیں، تاہم 17مارچ 2005ءکو کراچی سے چند دیگر بلوچ سیاسی کارکنوں کے ہمراہ گرفتار ہوئے اور چند ماہ غائب رہنے کے بعد علیحدہ شناخت کے ساتھ منظرعام پر آگئے۔ انہیں دورانِ اسیری تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا چنانچہ کوئٹہ کے سول ہسپتال میں دو ماہ تشویشناک حالت میں زیرعلاج رہے۔ بعد ازاں ڈاکٹر اللہ نذر کو تربت اور آواران میں ایف سی کے قلعوں پر راکٹ داغنے کے الزام میں پولیس نے حراست میں لے کر ان کے خلاف مقدمہ درج کرلیا اور انہیں تربت منتقل کردیا۔ جون 2006ءمیں انسداد دہشت گردی کی عدالت نے انہیں ضمانت پر رہا کردیا جس کے بعد ڈاکٹر اللہ نذر کسی پیشی پر حاضر نہ ہوئے اور پہاڑوں کی راہ لی، اور آج بلوچستان میں مسلح کارروائیوں میں نمایاں مقام کے ساتھ برسرپیکار ہیں۔ ڈاکٹر اللہ نذر اینٹی سردار سوچ کے مالک بھی ہیں۔ سینیٹ میں اپنے خطاب میں وفاقی وزیر داخلہ نے یہ بھی بتایا کہ بلوچ ارکانِ پارلیمنٹ کو جان سے مار دینے کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔ رحمان ملک نے دعویٰ کیا کہ وہ بلوچستان کے واقعات میں خفیہ ہاتھ کو بے نقاب کرنے اور ان کے کیمپوں اور تربیت گاہوں کی تفصیلات فراہم کرنے کو تیار ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ نے بتایا کہ بلوچستان میں چار نجی فوجیں ہیں: بلوچستان لبریشن آرمی جسے حیربیار مری چلا رہے ہیں، بلوچستان ری پبلکن آرمی، بلوچستان لبریشن فرنٹ جس کے سربراہ ڈاکٹر اللہ نذر ہیں اور لشکرِ بلوچستان جاوید مینگل کی ہے جو سردار اختر جان مینگل کے بھائی ہیں۔ باقی مسلح تنظیموں کے حوالے سے کوئی ابہام نہیں لیکن سردار اختر مینگل بلوچستان کے قدآور سیاسی رہنماءسردار عطاءاللہ مینگل کے صاحبزادے ہیں۔ سردار عطاءاللہ مینگل نے ساری زندگی سیاسی جدوجہد کے ہتھیار کو استعمال کیا ہی، چنانچہ ایک جمہوری سیاسی جماعت اگر مسلح تنظیم سے ناتا رکھتی ہے تو یہ افسوسناک اور تشویشناک بات ہے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل کو لشکر بلوچستان سے متعلق وضاحت کرنی چاہیے۔ اگر واقعتا لشکرِ بلوچستان، بلوچستان نیشنل پارٹی کا مسلح ونگ ہے تو پھر بات واضح ہے کہ وہ بھی تشدد، مرو اور مارو کی سیاست پر یقین رکھتی ہے۔ بی این پی کے مرکزی سیکریٹری جنرل حبیب جالب کے قتل کے بعد لشکر بلوچستان کا دیگر مسلح تنظیموں کے برعکس بیان بھی معنی خیز ہے جس میں انہوں نے حبیب جالب کے قتل کا بدلہ لینے کا اعلان کیا تھا۔ پیر 26 جولائی کو سینیٹ میں حبیب جالب کے قتل کے خلاف مذمتی قرارداد منظور ہوئی۔ اس موقع پر چیئرمین پارلیمانی کمیٹی برائے قومی سلامتی و مشیر سینیٹر رضا ربانی نے کہا کہ ”بلوچستان میں اعتماد کا فقدان ہی، جب تک اعتماد بحال نہیں ہوگا اور بلوچستان کو فائدہ نہیں پہنچایا جائے گا، وہ مطمئن نہیں ہوں گے“۔ نیشنل پارٹی کے صدر ڈاکٹر مالک بلوچ نے اس موقع پر کہا کہ’بلوچستان حکومت لوٹ کھسوٹ میں لگی ہوئی ہی، اغواءبرائے تاوان کے نشانات وزراءکے گھروں تک جارہے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے امیر سینیٹر مولانا محمد خان شیرانی نے اپنے خطاب میں کہا کہ ”انسداد دہشت گردی کی پالیسی سے دہشت گردی اور انتہاءپسندی کو فروغ ملا ہی، حکومت اس پالیسی کے حوالے سے اپنی کارکردگی سے قوم کو آگاہ کری، پالیسی کی تشکیل سے قبل اور بعد کے حالات کا تقابلی جائزہ پیش کیا جائے۔ بلوچستان میں فورسز کی موجودگی میں حالات خراب ہورہے ہیں۔ مجرم گرفتار بھی ہوتے ہیں تو خفیہ ہاتھ انہیں چھڑا کر لے جاتے ہیں۔ جو دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لئے اجرت دے رہا ہے یہ جنگ اسی کی ہے۔“

دوسری جانب صوبے میں ٹارگٹ کلنگ کا سلسلہ جاری ہی، دستی بم حملے بھی کئے جارہے ہیں۔ 23 جولائی کو جیل روڈ پر جیل کالونی میں رہائش پذیر اہلکار بہرام خان کے گھر پر بم پھینکا گیا جس سے وہ اور اس کی بیٹی زخمی ہوگئی۔ 27 جولائی کو قلات میں پولیس تھانہ قلات کے ایڈیشنل ایس ایچ او نعمت اللہ شاہوانی کو موٹر سائیکل سواروں نے قتل کردیا۔29 جولائی کو ریلوے ہاﺅسنگ سوسائٹی میں ایک سرکاری ملازم کے گھر پر دستی بم سے حملہ کیا گیا۔ اسی روز بروری روڈ پر پنجاب سے تعلق رکھنے والے مستری حبیب اللہ کو قتل کردیا گیا۔ فائرنگ سے اس کا ساتھی ممتاز شدید زخمی ہوا۔ اسی طرح 30 جولائی کو دن دہاڑے سرکی روڈ پر بلوچستان یونیورسٹی پولیس تھانے کے اہلکار ذوالفقار نقوی کو موٹر سائیکل سواروں نے فائرنگ کرکے قتل کردیا۔ ان حالات میں غور طلب اور تشویشناک پہلو یہ سامنے آیا ہے کہ گزشتہ چند دنوں سے پراسرار انداز میں قتل کے بعد لاشیں پھینک دی جاتی ہیں۔ جولائی میں نجیب لانگو، اشفاق ملازئی اور فاروق مینگل سمیت پانچ افراد قتل ہوئے ہیں، یہ افراد چند ماہ قبل لاپتا ہوئے تھے جن کے ورثاءکا یہ دعویٰ ہے کہ انہیں سیکورٹی فورسز نے اٹھایا تھا۔ مندرجہ بالا تینوں افراد کی ذمہ داری سپاہ شہدائے بلوچستان نامی تنظیم نے یہ کہہ کر قبول کی ہے کہ ان کا تعلق بلوچ مسلح تنظیموں سے تھا جو ہندو اور یہودی آقاﺅں کی ایماءپر بے گناہ لوگوں کو نشانہ بنارہے تھے۔ ۔

ان ہلاکتوں پر کالعدم بلوچ لبریشن آرمی سمیت دیگر عسکریت پسندتنظیموں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے جس سے یہ تاثر ملتا ہے کہ ان افراد کا تعلق فی الواقعی مسلح تنظیموں سے تھا ۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قتل کے واقعات میں عسکریت پسندوں سے تعلق کو بنیاد بناکر ریاستی ادارے ملوث ہیں یا مضبوط قبائلی گروہ ؟ جومختلف اوقات میں متاثر ہوتے آرہے ہیں ۔گویا بلوچستان میں جاری خونی جنگ اب رخ اختیار کررہی ہے ۔اس صورتحال کو رحمان ملک کے اس بات سے خوب سمجھا جاسکتا ہے کہ ”طالبان کی شکست کی طرح حکومت یہی کامیابی بلوچستان میں بھی حاصل کر کے رہے گی“۔ ۔

Tuesday, May 4, 2010

بلوچستان کے بجھتے چراغ

تحریر:ا خوندزادہ جلال نورزئی
jalal.noorzai@gmail.com
جامعہ بلوچستان کے شعبہ ابلاغیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ناظمہ طالب کی بہیمانہ ٹارگٹ کلنگ کے بعد بلوچ مسلح انتہاءپسند تنظیموں کا انتہائی بھیانک چہرہ سامنے آچکا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد فکر و خیال اور ترجیحات کے لحاظ سے بلوچ جماعتوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان خط تقسیم کھنچ گئی ہے ، افسوسناک امر یہ ہے کہ پروفیسر ناظمہ کا قتل مسلح تنظیموں سمیت بلوچ نیشنل فرنٹ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے لئے کامیابی کا لمحہ ہے مگر اس سنگدلانہ واردات کی مذمت واضح انداز میں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے بھی نہیں کی، دونوں جماعتوں نے مصلحت کی چادر اوڑھ رکھی ہے ، یہ طرز عمل یہ پتہ دیتا ہے کہ مذکورہ دونوں جماعتیں اس قتل پر راضی اور شافی ہے ان واقعات کا جو المناک نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ صوبے میں علم کی شمع بجھنے کو ہے ، اگر یہ شمع بجھ گئی تو بی این پی کے مسٹر حبیب جالب کی سیاسی باتوں الزامات بے بجا تہمتوں پر کوئی کان نہیں دھرے گا کیونکہ کوئی سوچنے اور سمجھنے والا نہیں رہے گا اگر ان کا یہ خیال ہے کہ بلوچستان بس آزاد ہونے والا ہے تو انہیں صرف ان الفاظ میں جواب دیا جاکستا ہے کہ ”دلی ہنوز دور است“ ۔ لہٰذا احتجاج اور سیاست کا قابل قبول راستہ اختیار کیا جانا چاہیئے ۔کل کلاں اگر سیاست کا پہیہ کسی اور طرف گھومتا ہے تو پھر کسی کی ہمدردی حاصل نہیں کی جاسکے گی اور اسداتذہ کو قتل کرکے صوبے کی نوجوان نسل کو جس نقصان کا سامنا ہوگا اس کی تلافی بھی ممکن نہیں ہے ۔

کسی نے اساتذہ کے قتل کے حوالے سے کیا خوب کہا ہے کہ ” معاشرے سے علم کے چراغوں کا بجھانے کا جو عمل علم دشمنوں نے شروع کیا ہے اس پر اہل نظر انسان دوست ، جمہوریت دوست اور بلوچستان کی آئندہ نسلیں جامعہ بلوچستان کے در و دیوار سے لپٹ کر روئیں گی “ ۔میں یہ کہوں گا کہ صرف جامعہ بلوچستان ہی نہیں بلکہ صوبے کے ان علاقوں کے تعلیمی اداروں سے بھی لپٹ کر رویا جائےگا جہاں کوئی معلم جانے کو تیار نہیں ہے ۔ کسی نے آزادی اور حقوق کا جو راستہ اختیار کیا ہوا ہے اس کا منطقی نتیجہ بلوچستان کی بربادی ہے ناکہ خوشحالی ۔ نادیدہ عناصر پیش ازیں بلوچستان یونیورسٹی کے بزرگ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر صفدر کیانی کو قتل کرچکے ہیں ، بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنسز کے سربراہ پروفیسر خورشید انصاری کے خون ناحق سے ہاتھ رنگین کرچکے ہیں ۔ تعمیر نو ماڈل ہائی اسکول کے پرنسپل پروفیسر فضل باری کو پیوند خاک کیا گیا اور کئی سینئر معلمین کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے ۔ نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ نشان زد قتل کے واقعات کے پیش نظر جامعہ بلوچستان سے اب تک پچیس سینئر ترین پی ایچ ڈی اساتذہ ٹارگٹ کلنگ کے خوف کے باعث دوسرے صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں۔ پروفیسر ناظمہ طالب کے قتل کے بعد ستر سے زائد اساتذہ نے مادر علمی کو چھوڑنے کی خاطر این او سی کے لئے درخواستیں جمع کروادی ہیں اس تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ یونیورسٹی کے پانچ سو کے قریب اساتذہ میں سے نصف کا تعلق بلوچستان سے نہیں ہے اور ان اساتذہ کو مسلسل سنگین نوعیت کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔بلوچستان یونیورسٹی بہترین دن بدن بہترین دماغوں سے محروم ہوتی جارہی ہے ۔جن ستر اساتذہ نے ملک کی دیگر جامعات میں تبادلے کے لئے این او سی کے حصول کے لئے درخواستیں جمع کرائی ہیں ان میں خواتین بھی شامل ہیں اور ان میں زیاد تعداد پی ایچ ڈی اساتذہ کی ہے ۔ اس بات کی تصدیق جامعہ بلوچستان کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر غلام رسول رئیسانی نے کردی ہے ۔چنانچہ لازمی بات ہے کہ اگر اساتذہ کو این او اسی نہیں بھی ملی تو وہ عدم تحفظ کے خوف سے یونیورسٹی نہیں جائیں گے ۔چونکہ یونیورسٹی سریاب روڈ پر واقع ہے اور یہ علاقہ اردو ، پنجابی اور ہزارہ قبیلے کے افراد کے لئے ممنوعہ علاقہ ہے اور بہت حساس بھی ہے ۔

بلوچ شدت پسند تنظیم بی ایل اے نے پروفیسر ناظمہ طالب کے قتل کی ذمہ داری اس حجت و دلیل کے ساتھ قبول کی ہے کہ پچیس اپریل کو سریاب کے علاقے میں پولیس اور انٹی ٹیررسٹ فورس کے سرچ آپریشن کے دوران ایک خاتون پر تشدد کیا گیا جس کے باعث وہ دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئیں چنانچہ اگر یہی دلیل ہے تو کوئٹہ شہر میں راکٹ داغنے کے واقعات میں جو بے گناہ لوگ اور بچے مختلف اوقات میں جاں بحق ہوچکے ہیں ان کے قتل کا حساب اور بدلہ کس سے لیا جائے ؟ حقیقت یہ ہے کہ راکٹ داغنے اور بم دھماکوں میں لا تعلق اور بے گناہ شہری ہی مرے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ خاتون کی مبینہ ہلاکت کا کیس بھی تو مشکوک ہے اگر واقعی ان پر تشدد ہوا تھا تو کیوں خاتون کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا حالانکہ سی سی پی او کوئٹہ غلام شبیر شیخ نے بھی احتجاج کرنے والوں سے خاتون کے پوسٹ مارٹم کا کہا اور واقعہ کی تحقیقات کے لئے تعاون کا یقین دلایا ۔ خاتون کی میت کو قبرستان لے جاتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکن اور مسٹر حبیب جالب ایڈووکیٹ اچانک پریس کلب لے آئے جس کے بعد بی ایس او آزاد کے کارکن بھی پہنچ گئے چنانچہ اس موقع پر بی ایس او آزاد نے بی این پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ یہ کہا گیا کہ خاتون ان کے کارکن کی والدہ ہے لہٰذا احتجاج کرنا ان کا حق ہے گویا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ احتجاج ضرور کیا جاتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری تھا کہ میڈیکل کارروائی کی جاتی تاکہ اس ضمن میں شک و شبے کے گنجائش نہ رہتی اور پوسٹ مارٹم اب بھی ہوسکتا ہے ۔

بلوچستان کی صورتحال اور حالات کی خرابی کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں بھی ہیں جنہوں نے آج تک حقائق تک پہنچنے کی کوشش سرے سے کی ہی نہیں اوراندھی تقلید کی سیاست کررہی ہیں ۔ایک طرف سیاسی جماعتیں پولیس اور حکومت سے بم دھماکوں ، ٹارگٹ کلنگ حتیٰ کہ اغواءبرائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کا شدید الفاظ میں مطالبہ کرتی رہتی ہیں لیکن جب اس ضمن میں انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میںلائی جاتی تو سب سے پہلے یہی جماعتیں نکتہ چینی شروع کردیتی ہیں یعنی صورتحال کو عوام کے سامنے مشکوک بنادیتی ہے۔ پروفیسر ناظمہ طالب کے قتل کے بعد جب مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا تو بی این پی (عوامی) کے سربراہ وفاقی وزیر میر اسرار اللہ زیری نے بیان داغ دیا کہ بے گناہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ اسرار اللہ زہری جب اتنا جانتا ہے کہ بے گناہ پکڑے گئے تو یقیناً انہیں گناہ گاروں کا بھی پتہ ہوگا بہتر ہوگا کہ وہ ملزمان کی نشاندہی بھی کریں تاکہ پولیس ان پر ہاتھ ڈالے ۔اس کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی ملزمان کی نشاندہی کریں ۔نیشنل پارٹی کہتی ہے کہ تمام برائیوں کی جڑ افغان مہاجرین ہیں ، ٹھیک ہے افغان مہاجرین کی آمد سے بہت سارے مسائل نے جنم لیا ہے ، چوری، ڈکیتیوں میں اضافہ ہوا ہوگا مگر عرض یہ ہے کہ افغان مہاجرین ٹارگٹ کلنگ،راکٹ راغنے ، دستی اور ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں میں ملوث نہیں ہیں ۔اوریہ حقیقت نیشنل پارٹی سے بھی مخفی نہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو بیوقوف بنانے کے حربے استعمال کرنا چھوڑ دیئے جائیں اگر ہمت ہے تو صاف صاف ان تنظیموں کو تنقید کا نشانہ بنائے جو ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں یہ حقیقت یقینا نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سمیت تمام جماعتوں پر عیاں ہیں ۔ تخریبی واقعات روز رونما ہورہے ہیں جس کی وجہ سے صوبے کو جہاں دیگر شعبوں میں شدید نقصان پہنچا رہا ہے وہاں زراعت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے کیونکہ آئے روز تخریب کاری کے واقعات میں بجلی کے ٹاورز اڑا دیئے جاتے ہیں جس کے باعث کئی کئی مہینوں تک عوام کے ساتھ ساتھ زمینداروں کو اضافی لوڈ شیڈنگ کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے ، متعدد بار یوں بھی ہوا ہے کہ جب مین ٹرانسمیشن لائنوں کو اڑا دیا جاتا ہے تو صوبے کے تیس میں سے بیس تاریکی اضلاع میں ڈوب جاتے ہیں ۔ تخریب کاری کے ان واقعات کے باعث کیسکو کو اب تک بیس کروڑ روپے کے قریب نقصان ہوچکا ہے جبکہ زمینداروں کے کروڑوں روپے کے نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔

بہر کیف حکومت پہ لازم ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں جس کے باعث بے کس و بے گناہ افراد کی ہلاکت کے واقعات تھم جائیں اور یہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اساتذہ کو تحفظ فراہم کرے تاکہ تعلیمی ادارے ویران ہونے سے بچ جائیں ۔

Sunday, May 2, 2010

بلوچستان میں انتشار اور عدم استحکام کا کھیل


Sunday, March 28, 2010

کوئٹہ مذہبی یا لسانی انتہاء پسندی کا شکار؟

بلوچستان غیروں کی سازش کے باعث جل رہا ہے اس الاؤ میں بتدریج اضافہ اپنوں کی چشم پوشی ، مصلحت کوشی اور مفادات کے باعث ہورہا ہے، یہ اپنے اسلام آباد کے وہ طبقات ہیں جو اقتدار کے مراکز پر براجمان ہیں جن کے نزدیک پاکستان ان کے ارد گرد کا خطہ زمین ہی ہے اور کثرت آباد ی کی زعم میں مبتلا ہوکر ملک کی سلامتی کو دانستہ طور پر داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں ۔جس کا نتیجہ صوبوں اور اقوام کے درمیان نفرت اور عداوت تخم ریزی کا برآمد ہوا ہے ،یہ وہ زہر ہلاہل ہے جس نے ملک کی حیات کو موت کے دہانے پر لا کھڑا کردیا ہے اس زہر کا تریاق جمہور و قانون کی حکمرانی اور آئین و دستور پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد ہے وگرنہ فاصلوں میں اضافہ ہوتا رہے گا ، دوریاں بڑھتی جائیں گی چنانچہ اغیار کو کھل کھیلنے کا مزید موقع فراہم ہوگا ۔ پاکستان میں انتشار کا کھلواڑ کھیلا جارہا ہے ان آتشی حالات کا نظارہ سرحد و بلوچستان میں دیکھا جاسکتا ہے اگر نگاہ با بصیرت ہو ؟ دشمن بلوچستان کی خون آشامی میں اپنا پورا پورا حصہ ڈال رہا ہے ، لاقانونیت اس وقت اپنے عروج پر ہے جس کی زد میں معصوم شہری چلے آرہے ہیں، سیکورٹی فورسز کے اہلکار مارے جارہے ہیں ، کمال ہے کہ حکمران طبقہ ڈیٹ بن کر محض تماشا دیکھ رہا ہے اصلاح احوال کے لئے درست راستے کا تعین نہیں کرپارہے ۔ غیر تو پاکستان کو غیر مستحکم ہی دیکھنا چاہتے ہیں ،بلوچستان کا یہ انتشار کوئی معمولی حکمت عملی کا شاخسانہ نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر دنیا کی بڑی بڑی قوتیں موجود ہیں جنہیں فقط اپنے ہی مفادات عزیز ہیں،ان قوتوں کا مطمع نظر دراصل بلوچستان کا ساحل اور زیر زمین وسائل ہیں شاید کہ ہمارے چند ناداں دوست کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر استعمال ہورہے ہیں ۔اگر یہ آزادی کی جنگ ہے تو یاد رہے کہ یہ جنگ خاکم بدہن پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھی جاری رہے گی اور محرومیوں کا یہ ماتم رُکے گا نہیں ۔
واضح دکھائی دے رہا ہے کہ بلوچستان لسانی ٹکراؤ کی طرف بھی بڑھ رہا ہے ۔مزید برآں بعض قوم پرست جماعتیں غیر کے کہنے پر چاہتی ہیں کہ کوئٹہ تخت و تاراج ہو ۔ طالبانائزیشن کے پھیلاؤ کا ”ہوا“ کھڑا کیا جارہا ہے، کوئٹہ اور شمالی بلوچستان میں طالبان کی موجودگی کے اشارے حکومت پاکستان کی بجائے افغانستان میں امریکہ کی سرخیلی میں موجود عالمی جارح قوتوں کو دیئے جاتے ہیں تاکہ حکومت پاکستان کو کوئٹہ میں آتش و آہنگ کا بازار گرم کرنے پر مجبور کیا جاسکے اورڈرون کی بلا بھی شہر کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بے گناہوں پر چھوڑی جائے۔یہ حضرات اپنے طور پر نشاندہی کرچکے ہیں کہ کوئٹہ کے فلاں فلاں علاقے طالبان کا گڑھ ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) ، نیشنل پارٹی کے علاوہ جملہ بلوچ قوم پرست جماعتیں بطور خاص کوئٹہ میں طالبان کی موجودگی کی بانسریاں بجاتی ہیں ۔ خیر سے محمود خان اچکزئی کی جماعت کی آواز کچھ مدھم ہوگئی ہے وجہ معلوم نہیں کہ یہ اچانک یو ٹرن کیوں لے لیا گیا ؟ البتہ مذکورہ بالا دیگر جماعتیں ہنوز طالبان کی موجودگی کا ڈول پیٹ رہی ہے اور تو اور تبلیغی جماعت سے بھی شاکی و خوفزدہ ہیں ۔ ان کے صاحبان عقل و دانش کے بقول منصوبہ بندی کے تحت بلوچ سیکولر معاشرے کو انتہاء پسندی کی راہ پر لے جایا جارہا ہے حالانکہ بلوچ انتہاء پسندی تو اب روز روشن کی طرح عیاں ہے پھر تبلیغی جماعت والے تو پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں تو کیا یہ سب آئی ایس آئی کی پالیسی کے تحت ہورہا ہے ؟ ۔
بات ہورہی تھی طالبان کی موجودگی اور نقل و حمل کی تو اس ضمن میں سیاسی سطح کے علاوہ اخبارات کے اداریوں ، مضامین اور خطوط کے ذریعے بھی افغانستان پر قابض قوتوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ طالبان کوئٹہ کے ان ان علاقوں میں موجود ہیں۔ اس تناظر میں معاصر انگریزی اخبار”ڈیلی ڈان“ میں ایم پوپلزئی ار شریف کاسی نامی افراد نے بیس مارچ دو ہزار دس ایڈیٹر کے نام خط میں کوئٹہ میں طالبانائزیشن کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے یہ نام فرضی لگتے ہیں یا پھر ہم خیال ہوں گے ۔یہ تحریر اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کا سطور بالا میں ذکر ہوا ہے کیونکہ نیتوں کے فطور عیاں ہوہی جاتے ہیں۔بہر کیف فتنہ پرور خیر خواہوں کا ڈان کے ایڈیٹر کے نام خط کا لب لباب یہ ہے کہ کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کا تعلق طالبان سے ہے اور طالبان پشتونوں ، بلوچوں اور ہزارہ اقوام کے فطری دشمن ہیں۔ خط میں مسلح کارروائیوں کے حوالے سے ضمنی طور پر ذکر بلوچ قوم پرستوں کا بھی کیا گیا ہے مگر مراد اس تحریر کی یہ ہے کہ طالبان کی موجودگی کو یقینی بناکر بڑی قوتوں کو حملے کا جواز فراہم کیا جائے۔
مزید مبالغہ آرائی ملاحظہ ہو ، تحریر میں کہا گیا ہے کہ 2001ء کو افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان آنے والے طالبان نے بہت ساری زمینیں قبضہ کرلیں اور یہاں نو گو ایریاز قائم ہوگئیں یہ علاقے افغانستان پر حملوں کے لئے بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ یہ بھی بتایاگیا ہے کہ حافظ مجید کوئٹہ شوریٰ کے لیڈر ہیں جن علاقوں کو نو گو ایریاز قرار دیا گیا ہے ان میں کوئٹہ شہر کا علاقہ پشتون آباد، کاکڑ کالونی، اسی طرح مشرقی و مغربی بائی پاس شامل ہیں ساتھ ان علاقوں کی نشاندہی اس طرح بھی کی گئی ہے کہ ان علاقوں کو طالبان اپنی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ مزید یہ کہا گیا ہے کہ ہلمند آپریشن کے بعد بھی طالبان کوئٹہ آئے اور سرکاری و غیر سرکاری زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ آخر میں حکومت پاکستان کو مخلصانہ تجویز دیتے ہوئے یہ تحریر کیا گیا ہے کہ مشرقی بائی پاس کے مقبوضہ زمینوں کو خالی کراکر تعلیمی اور صنعتی زون قرار دے کر تری دی جائے ۔ “ ڈان کی اس تحریر کو بنیاد بناکر کوئٹہ کے ایک مقامی روزنامہ ”آزادی“ نے بھی اپنے اداریے (23مارچ2010ء )میں تشویش کا اظہار کردیا بلکہ تشویش کچھ زیادہ ہی نمایاں تھی کہ یہ آباد کاری بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے کی جارہی ہے ۔ بہر حال ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون اقلیت میں ہے اور کون اکثریت البتہ غرض طالبان کی موجودگی اور نو گو ایریاز کے حوالے سے لوگوں کی بے چینی کا ضرور ہے، اولاً عرض یہ ہے کہ مشرقی بائی پاس گنجان آباد علاقہ ہے جہاں بلوچ اور پشتون دونوں اقوام آباد ہیں یہاں زمینوں کا تنازعہ قبائل کے درمیان ہوا تھا جو کہ اب حل ہوگیا ہے مشرقی بائی پاس میں پشتونوں کے مقامی قبائل مندوخیل، بڑیچ، اچکزئی، خلجی ، کاکڑ،نورزئی اور علیزئی آباد ہیں اسی مشرقی بائی پاس پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی موجود ہے اسی کیساتھ تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلیکس بھی موجود ہے جو ہر طرح سہولیات سے آراستہ ارادہ ہے جس کے پرنسپل ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر فضل بار ی کو22مارچ کو مشرقی بائی پاس پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرلی۔ اس واقعہ کے بعد مذکورہ تعلیمی ادارے کے اساتذہ نے عدم تحفظ کے باعث مزید پڑھانے سے انکار کردیانتیجہ یہ نکلاکہ تعمیر نو ٹرسٹ بلوچستان نے مشرقی بائی پاس پر موجود ایک عظیم ادارے کو بند کردیا ،اس ادارے میں ایک ہزار سے زائد طلباء زیر تعلیم تھے اور سینکڑوں طلباء ادارے کے ہاسٹل میں رہ رہے تھے ۔ اس ادارے کو آئندہ سالوں میں یونیورسٹی کا درجہ دیا جارہا تھا اور اسے ایجوکیشنل سٹی میں تبدیل کئے جانے کی منصوبہ بندی مکمل کرلی گئی تھی اس ادارے کے قیام سے علاقے میں تعلیم کے فروغ کے حوالے سے مثبت تبدیلی کے آثار نمایاں ہوگئے تھے ۔ تعمیرنو ٹرسٹ کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کا معیار کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرانے کے لئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتے اور لائق و خوش نصیب طلباء کو داخلے ملتے ۔اب ذرا بتایا جائے کہ مشرقی بائی پاس کو تعلیمی اور صنعتی زون بنانے کا مطالبہ کرنے والے اس ادارے کی بندش کے ذمہ دار ہیں یا طالبان ؟، جو سرے سے موجود ہی نہیں ۔ یاد رہے کہ علاقے کے لوگ کاروبار پیشہ اور محنت مزدوری کرنے والے ہیں۔ اسی طرح پشتون آباد، خروٹ آباد اور کاکڑ کالونی وہ علاقے ہیں جہاں ایف سی کی کوئی چوکی قائم ہے نہ ہی پولیس کی ،بطور خاص پشتو ن آ ٓباد اور کاکڑ کالونی کوئٹہ کے پرامن علاقے ہیں ۔ کوئٹہ میں زمینیں بے وارث نہیں پڑیں جسے کوئی بھی آکر قبضہ کرے بلکہ یہاں کی زمینیں قبائل کی ملکیت ہے ۔ پشتون آباد، خروٹ آباد اور کاکڑ کالونی کے علاقوں میں قانون کی مکمل عملداری قائم ہے اور لوگ قانون کا احترم کرنا بھی جانتے ہیں ۔ واضح ہو کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد اردو اور پنجابی بولنے والے مزدور اور ملازمت پیشہ افراد کاکڑ کالونی اور پشتون آباد میں بھی رہائش اختیار کررہے ہیں وہ اس لئے کہ یہ علاقے پرامن ہیں۔
رہی بات کہ طالبان کے بیس قائم ہیں یہ عقل سے ماورا ء الزام ہے جس پر کسی دلیل کی ضرورت وقت کا ضیاع ہوگا۔ تاہم کوئٹہ شہر میں نو گو ایریاز ضرور موجود ہیں ،وہ سریاب اور چند دوسرے علاقے ہیں جہاں بلوچ مزاحمت کاروں(ٹارگٹ کلرز) کی خوف سے رات کے اوقات میں کیا دن کو بھی اردو اور پنجابی بولنے و الوں کے علاوہ ہزارہ برادری کے افراد جانے سے کترانا تو دور کی بات سرے سے جاتے ہی نہیں ۔ ہم توکوئٹہ میں طالبان کی موجودگی تسلیم نہیں کرتے لیکن نام نہاد متعصب دانشوروں نے ٹارگٹ کلنگ کا الزام بھی طالبان پر عائد کردیا۔ الزام غلط بے جا ہی نہیں بلکہ سفید جھوٹ ہے ۔ کوئٹہ شہر میں فرقہ وارانہ وارداتیں تسلسل کے ساتھ ہورہی ہیں ان میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی ملوث ہے جس سے منسلک افراد کوئٹہ اور بلوچستان کے مغربی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ باقی سیکورٹی فورسز اور اردو و پنجابی بولنے والے اساتذہ، مزدوروں اور سرکاری ملازمین کو قتل کی ذمہ داری کوئی نہ کوئی بلوچ مسلح تنظیم قبول کرتی رہتی ہے ۔
بلوچستان کے پشتون علاقوں کی بڑی پارلیمانی جماعت جمعیت علمائے اسلام ہے جن کے ہر دور حکومت میں بطور خاص پشتون علاقوں میں تعلیمی ادارے تعمیر کئے گئے ہیں آج تک کسی کالج یا اسکول پر کسی نے پتھر تک نہیں پھینکا، نوجوان نسل زیور تعلیم سے آراستہ ہورہی ہے مگر افسوس کہ طلباء و اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ کے باعث کیڈٹ کالج مستونگ ، خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی، خضدار ریذیڈنشل کالج کے علاوہ دیگر تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ۔ ایک بے سرو پا الزام جہادی تنظیموں اور طالبان پر کوئٹہ شہر میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کا بھی لگایاگیا ہے چنانچہ اس پر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کوئٹہ شہر میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں کون لوگ اور گروہ ملوث ہیں اور کن پہاڑی سلسلوں میں تاوان کی ادائیگی تک رکھا جاتا ہے ،اُن لوگوں سے جو تاوان ادا کرنے کے بعد گھروں کو لوٹ آئے ہیں ،پوچھا جائے کہ اغواء کاروں کون تھے؟۔ڈی آئی جی آپریشن حامد شکیل بھی کہہ چکے ہیں کہ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں اکیس گروہ ملوث ہے جن میں سے انیس گروہ کے متعدد ارکان کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور یہ تمام مقامی افراد ہیں۔ ان حضرات کا مقصد اپنے آقا امریکہ کو کوئٹہ میں انتشار پھیلانے کے لئے جواز فراہم کرنا ہے تاکہ ان کے فتنہ ذہنی اور تعصب کو سکون میسر ہو۔
مذکورہ اخبار نے کسی کند نا تراش کے بے میل و سر و پا الزامات پر معاً ادارایہ تحریر کیا ،شہر میں خرابی و قتل عام کا الزام طالبان کے سر تھوپ دیا ۔اسی اخبار کے کسی ادارے اور خصوصی رپورٹ میں ہم نے کسی بے کس پنجابی اور اردو بولنے والے معلم ، مزدور اور ملازم کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کے الفاظ نہیں پڑھے۔ اس گلشن کو اسلام آباد کے مقتدر طبقات کے علاوہ اپنے بھی تباہ و ویران کرنے پر تلے ہوئے ہیں ،الزام لگایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں آرمی مبینہ طور پر آپریشن کرکے بلوچوں کا قتل عام کررہی ہے مگر افسوس کہ یہی قوتیں امریکہ کو کوئٹہ اور شمالی بلوچستان پر ڈرون حملوں کی ترغیب بھی دے رہی ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ طالبان اپنے ملک افغانستان میں قابض قوتوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں وہ کوئی لینڈ مافیا نہیں کہ کوئٹہ میں آئے اور کسی کی زمینوں پر قبضہ کرے اور تحصیل ، تھانہ و کچہریوں کے چکر لگائے اور پٹواریوں کو جیب خرچہ دے کر خوش کرتا پھرے ۔

Sunday, February 7, 2010

پاکستان افغانستان ،دو قالب یک جان ؟

تحریر: اخوندزادہ جلال نورزئی
پاکستان اور افغانستان کے لئے نعرہ لگایا جاتا تھا کہ دونوں ممالک دو قالب یک جان ہے ۔1992ء میں سرخ افواج (روسی) جب شرمندہ و نامراد ہوکر دریائے آمو پار کرکے صدمے سے دو چار تھکے ہارے اپنے وطن کو لوٹ گئیں ۔ اپریل1978ء میں ”خلقیوں“ نے افغان صدر سردار داؤد کو معہ پورے خاندان تہ تیغ کیا ان کی نسل مٹادی اور افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کانعرہ مستانہ بلند کیا اس کے ساتھ انقلابیوں نے کشت و خون کا بازار گرم کردیا کابل کی گلیاں خون سے لالہ زار کردی گئیں اس انقلاب کے لئے روس نواز افغان جماعتیں مری جارہی تھیں۔ تعلیمی اداروں میں کمیونزم کی تبلیغ کی جاتی تھی حتیٰ کہ ان گمراہ افغان کمیونسٹوں کے اجتماعات میں جب کوئی دوشیزہ خطاب کے جوہر دکھانے اسٹیج پر آتی تو سامع نوجوانوں کو جوش ولولہ دیتیں اور ان کی دل لبھائی کے لئے کہتیں کہ جو نوجوان کمیونسٹ انقلاب کا نقیب ثابت ہوگا تو یہ سرخ رسیلے ہونٹ اس کا انعام ہوگا۔ انجام کار انقلابی آپس میں دست و گریبان ہوگئے ، اقتدار کی رسی کشی میں ایک دوسرے کا قتل عام کیا گیا نور محمد ترہ کئی جو اس فساد کے سرخیل کے طور پر نمودار ہوا اس مناقشہ میں قتل کردیئے گئے اور یہ کار خیر کسی جہادی تنظیم نے نہیں کیا ان دنوں تو انقلابی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے جہاد اور مزاحمت دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی بلکہ فسادیوں کی چپقلش جاری تھی نور محمد تروہ کئی کو حفیظ اللہ امین نے راستے سے ہٹادیا اسی طرح حفیظ اللہ امین بھی ابد کی گہری نیند سلادیئے گئے ۔ کہا کرتے تھے کہ افغانستان میں موروثی سیاست کا خاتمہ کردیا گیا ، مذہبی انتہاء پسندی کی گنجائش نہیں رہی دقیانوس نظام کی بجائے مساوات کا نظام آچکا ہے حیرانگی کی بات ہے کہ سویت یونین کے یہ خدمت گزار ایک دوسرے پر ایجنٹ کے الزامات بھی لگاتے تھے اس ضمن میں حفیظ اللہ امین کو امریکی سی آئی کارنددہ کہا جاتا تھا۔ افغانستان میں فساد اور غیر یقینی حالات کا خشت اول انہی حضرات نے رکھا پھر ہو ایہ ہے کہ حفیظ اللہ امین کے بعد ببرک کارمل روسی ٹینکوں پر سوار دار الخلافہ کابل میں داخل ہوا۔ نور محمد ترہ کئی اور ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت تک سرحد پار سے لوگ اس کمزور اور بے معنی انقلاب کے لئے مرے جارہے تھے انہیں اچھی طرح ادراک تھا کہ افغان معاشرے میں ایسی کوئی بھی تبدیلی جس کی بنیاد ترک مذہب یا مذہب بیزاری پر ہو قبول نہیں کی جائے گی ، ان کو تاہ چشم ٹولوں کو فقط اس خواہش اور امید نے حصار میں لے رکھا تھا کہ شاید کسی طرح افغانستان سے مذہب کا خاتمہ ہو حالانکہ ایسا ہو نہیں سکتا بلکہ کل کی طرح آج بھی نا ممکن ہے
۔افغانستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی حملہ آور یا قابض قوت کا مقابلہ کیا گیا ہے تو وہ دینی حمیت کی بنیاد پر ہوسکا ہے ۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ پہلی افغان جنگ1849ء تا1842ء اور دوسری انگریز افغان جنگ 1878ء اسی طرح تیسری بار انگریزو ں کے ساتھ1919ء کی جنگ میں مذہب کا عنصر بہ درجہ اتم موجود تھا،یہ جنگیں افغان یا پشتون قومیت کی بنیاد پر نہیں لڑی گئی تھیں بلکہ انگریز کے خلاف جہاد کا علم بلند ہوا اس استقامت عزم اور حوصلے کی بنیاد پر انگریز زیادہ دیر اپنا قبضہ جمانے میں بار بار ناکام رہے، یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر روسیوں کے خلاف جہاد نہ ہوتا اور مخالفت میں فقط نیشنلزم میدان میں ہوتی تو نہ صرف روسی اور اس کے ماتحت آسانی سے حکومت کرتے بلکہ گرم پانیوں تک آنکھوں میں جو خواب سجا رکھے تھے ،ممکن تھا کہ وہ بھی شرمندہ تعمیر ہوتا ،امریکہ تو کیا ،چاہے پوری دنیا کی کمک اور حمایت روس کی مخالفت میں دستیاب ہوتی پھر بھی روس کے ایک سپاہی کا بال بھیگا نہ ہوتا ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا ادراک لبرل اور سیکولر افراد کو ہونا چاہیئے ۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر نجیب اللہ نے اپنا قبلہ تبدیل کرنے کی سعی کی اور جا بجا اپنی تقریروں میں قرآن وحدیث سے حوالے دیتا رہا گویا افغان عوام اور مجاہدین کو یہ باور کرانا تھا کہ کمیونزم پر ایمان اگر تھا تو وہ نور محمد ترہ کئی ، حفیظ اللہ امین اور ببرکارمل کو تھا ، جو اب نہیں رہیں اور کابل کے قصر صدارت میں اب ایک کمیونزم بیزار صدر براجمان ہے ۔ سوچ اور حیرت کی بات ہے کہ ایک پرامن افغان حکومت کو جب نور محمد ترہ کئی نے توپوں اور ٹینکوں کے گولوں سے بے قرار کیا تو کسی نے اس کی مذمت کی اور نہ ہی اس وقت کوئی خفگی اور ناراضگی کا اظہار ہوا ،جب سردار داؤد کے پورے خاندان کو نسیت و نابود کردیاگیا تواس عمل پر اس لئے خاموشی کا مظاہرہ کیا گیا کہ انقلاب کے لئے بسا اوقات اس نوعیت کی سفاکی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہوتا ہے یعنی نیکی پھیلانے کے لئے اگر خون بہایا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔چنانچہ اس عمل کا ارتکاب جب طالبان سے سرزد ہوا جنہوں کابل پر قبضہ کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کو لٹکایا تو پاکستان میں موجود خیر خواہوں نے ہا ہا کار مچادی ۔ طالبان کے اس اقدام کو درندگی دہشت اور وحشت سے معمور عمل قرار دیا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔حالانکہ اگر دیکھا جائے تو طالبان نے بھی انقلاب برپا کردیا اور وہ بھی فساد کے دور میں ،جب ہر طرف انارکی ، بدامنی ،لوٹ مار اور مردم کشی کا بازار گرم تھا، جنگی کمانڈروں کی بد معاشی کا چلن عام تھا ،کسی کی مال و عزت محفوظ نہ تھی ، صرف اسپین بولدک سے قندھار شہر تک129 ناکے جنگی کمانڈروں نے قائم کر رکھے تھے اور ان تمام مقامات پر ٹرانسپورٹروں کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا ۔ایسے میں خاک نشین طالبان نے اگر اصلاح کا بیڑہ اٹھایا تو فساد کے اس عالم میں یہ انقلاب ہی تھا جو طالبان نے برپاد کردیا ۔ اگر نور محمد ترہ کئی کے نزدیک سردار داؤد کو قتل کرنا ان کے انقلاب کے لئے لازم تھا تو ڈاکٹر نجیب اللہ کو قتل کرکے طالبان نے کونسا برا کام کیا ؟۔ دراصل ڈاکٹر نجیب اللہ بھی تو خلقیوں اور پرچمیوں کے نظام فساد کا، کارندہ ہی تھا ، یہی نہیں نور محمد ترہ کئی نے سینکڑوں ہزاروں افراد کو محض اس لئے تہہ تیغ کیا کہ وہ ان کے انقلاب کے مخالف تھے ، ان سے مزاحمت کا خدشہ تھا ۔ سردار داؤد بھی مخالفین پر ہاتھ صاف کرتے رہے۔ معنی کہ سردار داؤد کو بھی بطور خاص مذہبی جماعتوں سے پر خاش تھی ، وہ خوف میں مبتلا تھے گویا باقی تمام شرو فساد جائز ، بس مذہبی لوگوں کو بر سر اقتدار نہیں آنا چاہیئے ۔ بات یہ ہے کہ افغانستان کو مطلوب امن طالبان نے فراہم کیا ،امریکہ اور نیٹو ممالک کی90ہزار عساکر جدید اسلحہ سے لیس ہوکر بھی افغانستان کو تبدیل نہیں کرسکی ہیں ۔ امریکہ کی تیس ہزار افواج بھی آتی ہیں تو حالات جوں کے توں رہیں گے۔ دریا آمو کو عبور کرتے ہوئے روسی افواج بڑی ہشاش بشاش تھیں تاہم جب اسی دریا آمو کی سمت روس کی شکستہ فوج افغانستان سے گام گام نکل رہی تھی تو دنیا کو ان پر ترس آرہا تھا اور اور روسیوں کا انجام تاریخ کا عبرتناک باب ثابت ہوا۔ یہی شرمندگی انگریز استعمار کے نامہ اعمال میں افغان حریت پسندوں نے نوشتہ کردیا ہے بعینہ امریکہ اور اس کے جنگی یارو(نیٹو ممالک) کے ساتھ ہونے والا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ روسیوں کے جانے کے بعد مجاہدین کی حکومت جیسی تیسی تھی پاکستان کی خیر خواہ تھی۔ مابعد1994 سے8اکتوبر2001ء تک طالبان دورحکومت میں ،افغانستان پاکستان دوست ملک تھا اور یہ جملہ بطور خاص طالبان کے چند سالہ دور اقتدار پر صادق آتا ہے کہ دو قالب یک جان ،پاکستان ،افغانستان!

Monday, November 9, 2009

بلوچستان کے بگڑتے حالات اور حکومتی عدم توجہی

ملک جن حالات سے آج کل دو چار ہے اس سے وطن کا کوئی بھی باسی بے خبر نہیں ۔افواج پاکستان مالا کنڈ ڈویژن کے بعد اب جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات میں مصروف ہے ۔ رب ہی بہتر جانتا ہے کہ آیا راہ نجات آپریشن سے فی الواقعی دہشت گردی اور غریب کاری سے نجات حاصل ہوسکے گی ؟ بہر حال ایک آزمائش اور امتحان ہے جس میں من حیث القوم ہمیں مبتلا کردیاگیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا آپریشن راہ نجات کے بعد امریکہ پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہوگا ؟ سردست لگتا ایسا نہیں ہے ۔امریکہ افغانستان میں پاﺅں جمانے کی خاطر پاکستان کو انتشار ، بدامنی اور لاقانونیت کے دلدل میں دھنساتا جارہا ہے شاید اس ضمن میں انہیں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ۔ ساتھ بلیک واٹر اور امریکی مداخلت بھی ایک سنگین اور قابل توجہ مسئلہ ہے لہٰذا راہ نجات کی ضرورت اس تناظر میں بھی محسوس کرنی ہوگی ۔اس پورے کھیل میں بلوچستان کو بھی غیر معمولی حیثیت حاصل ہے تاہم اس جانب تساہل کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے صوبے کی حساس اور تشویشناک صورتحال سے چشم پوشی اور پہلو تہی کے مزید خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی فرماتے ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں سے بلوچستان کی صورتحال بہتر ہے یہ طفل تسلی ہے جو خود کو دی جارہی ہے ۔بلوچستان کو نسبت دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ صوبہ بجائے خود آتش فشاں پر ہے جس کی چنگاریاں بھڑک رہی ہیں کسی غفلت اور خوش فہمی کے نتیجے میں اس آتش فشاں کے شعلے پھر شاید کسی کے قابو میں نہیں آئیں گے ۔بلوچستان میں علیحدگی کی سوچ کو تقویت د ی جارہی ہے نیز صوبے کو لسانیت کی بنیاد پر تصادم کی راہ پر لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے امیر سینیٹر مولانا محمد خان شیرانی نے اس جانب توجہ د لائی ہے ان کا کہنا ہے کہ ” کیری لوگر بل میں انسداد خانہ جنگی کے لئے بھی فنڈ مختص کیا گیا ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت کوئی خانہ جنگی نہیں لہٰذا بل کے اس شق سے ظاہر ہوتاہے کہ امریکہ پاکستان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنا چاہتا ہے اور قبائلی لشکروں کی شکیل اس سلسلے کی کڑی ہے ،دشمن بلوچستان میں پاﺅ جمانے کی کوشش کررہا ہے “۔

یقینا بلوچستان کی صورتحال کو نازک ہے امریکہ کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے کارروائی کی نیت رکھتا ہے جس کی معاونت یہاں کی قوم پرست جماعتیں کررہی ہیں حالانکہ بلوچستان میں کوئی مذہبی انتہاءپسندی ا ور دہشت گردی کے مراکز موجود نہیں ہیں ،نا ہی اس نوعیت کی کوئی سرگرمی دکھائی دیتی ہے ۔البتہ انتہاءپسندی اگر ہے تو وہ لسانی اور قومی بنیادوں پر پائی جاتی ہے ، قومی حقوق کے نام پر متشدد جدوجہد ہورہی ہے اور اس دوران پولیس اور سیکورٹی فورسز کے علاوہ آباد کاروں کوقتل کیا جارہا ہے ۔ بلوچستان کے وزیر تعلیم شفیق احمد خان اسی مسلح جدوجہد کی بھینٹ چڑھ گئے اور مزید بھی بہت کچھ ہونے والا ہے ۔ اس حوالے سے حکومت یہ بتارہی ہے کہ بلوچستان کے حالات میں بھارت ملوث ہے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک فرماتے ہیں کہ ان واقعات میں ملوث لوگ رقم لیکر یہ کام کرتے ہیں۔ بہر حال اب تک بہت سارا نقصان ہوچکا ہے ، پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بطور خاص ہدف بناکر مارا جاتا ہے تعلیمی اداروں کے ملازمین اور اساتذہ قتل ہوچکے ہیں ۔ 5نومبر کو جامعہ بلوچستان کے بعد لائبریری سائنس کے چیئرمین پروفیسر خورشید انصاری کو اپنی رہائشگاہ کے قریب قتل کیا گیا پروفیسر خورشید انصاری عشاءکی نماز کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلے چند ہی قدم کے فاصلے پر موٹر سائیکل سواروں نے ان پر گولیاں برسائیں انہیں پانچ گولیاں لگیں جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی خالق حقیقی سے جاملے۔ خورشید انصاری 1985ءسے بلوچستان یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے تھے ، ان کا آبائی تعلق لاہور سے تھا تاہم انہیں کوئٹہ میں سپردخاک کردیا گیا ۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے تین یوم سوگ اور تدریسی عمل معطل کیا گیا قتل کے اس واقعہ کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرلی۔ گزشتہ سال اپریل میں بلوچستان یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر صفدر کیانی کو بھی نامعلوم افراد نے گھر کے سامنے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا ۔اسی طرح رواں سال (24جولائی کو )کوئٹہ کے سریاب روڈ پر گورنمنٹ ڈگری کالج میںکمیسٹری کے پروفیسر پروفیسر غلام سرور کو گھر کی چوکھٹ پر فائرنگ کر کے قتل کیا گیا ۔23جولائی کو سریاب روڈ پر واقع سریاب مل میں گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کے وائس پرنسپل حاجی محسن انصاری صبح ا سکول کے گیٹ کے سامنے نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہو ا۔یاد ش بخیر !محسن انصاری پروفیسر خورشید انصاری کے رشتہ دار تھے ۔مزیدبرآںکامرس کالج کوئٹہ کے پرنسپل پروفیسر امانت علی کو 23جون2009ءکی صبح کالج کے مرکزی دروازے پر گاڑی سے اترتے ہوئے طلباءکے سامنے نامعلوم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنایا اسی طرح مستونگ اور خضدار میں بھی سکول اور کالج کے اساتذہ کو قتل کیا گیا ہے جبکہ زندگی کے دیگر شعبوںسے تعلق رکھنے والے دیگر کئی افراد بھی نادیدہ افراد کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں ان واقعات میںجاں بحق ہونےوالے افراد کے اعداد و شمار اگر سینکڑوں میں بیان کئے جائیں تو مبالغہ نہ ہوگااور یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے بلکہ بلوچ مسلح تنظیمیںمختلف مواقع پر ان وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہیں جو ان واقعات کواپنے مقصد کی تکمیل کا ذریعہ بیان کرتے اور سمجھتے ہیں اور یہ ارادہ ظاہر کرتے ہیں کہ آئندہ بھی اس نوع کے مقاصد کے حصول کے لئے سر گرم رہیں گے ۔حد تو یہ ہے کہ کوئٹہ میں لڑکیوں کے سکول پر بھی دستی بم حملہ کیا گیا اس واقعہ میں سکول کی تین استانیاں زخمی ہوگئیں ۔یہ کوئٹہ اور شاید صوبے میںاپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے عام طور پر یہ توقع طالبان یا دانست میں مذہبی انتہاءپسندوں سے کی جاتی ہے لیکن معروضی تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ کوئٹہ یا صوبے کے کسی دوسرے علاقے میں مذہبی عناصر کی جانب سے اس نوعیت کا کوئی واقعہ نہ وقوع پذیر ہوا ہے اور نہ ہی کوئی امکان پایا جاتا ہے ۔ اگرچہ منو جان روڈ پر واقعہ ہدہ گرلز ہائی سکول پر دستی بم حملے کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی لیکن عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کارروائی صوبے کی کسی مسلح تنظیم کی جانب سے کی گئی ہے ممکن ہے کہ یہ عام تاثر درست نہ ہو ۔اسی روز (7نومبر2009ئ) شہر کے وسط میں واقع میزان چوک پر ایف سی چیک پوسٹ کے قریب بم حملے میں چودہ افراد زخمی ہوگئے جن میں ایک سیکورٹی اہلکار اورتین بچے بھی شامل تھے ۔زخمی ہونے تمام کے تمام مزدور کار اور غریب لوگ تھے جو اس چوک پر تھڑو ں پر یا ریڑھیاں لگا کر معاش کے حصول کے لئے موجود تھے ۔ ان واقعات میں آباد کاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ظاہرہے کہ فائرنگ اور بم حملوں میں آباد کار کے علاوہ دوسرے لوگ بھی ہلاک یا زخمی ہوتے رہتے ہیں اور اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ایک اور پہلو جو بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ مسلح تنظیمیں آباد کاروں کوبلا تمیز عہدہ و مرتبہ نشانہ بناتے ہیں یعنی ان واقعات میں حجام، خاکروب اور محنت و مزدوری کرنے والے افراد کو بھی بخشا نہیں جاتا۔گزشتہ دنوں (30اکتوبر) کیڈٹ کالج مستونگ کے درجہ چہارم کے ملازمین یونس اور منور کو کلاشنکوف سے فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا ۔31اکتوبر کوبلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے سیکرٹری حامد محمود کوقاتلانہ حملے میں شدید زخمی کردیا گیا جو اس وقت بھی زیر علاج ہے ۔ اس واقعہ کی ذمہ داری بلوچ لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ نے قبول کرلی ۔

گویا کشت و خون کا بازار گرم ہے جبکہ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ دیگر صوبوں کی نسبت یہاں حالات بہتر ہے اب اندازہ لگایا جائے کہ یہ نسبت ملک کے دیگر کس علاقے سے میل رکھتا ہے ؟ اور کالعدم مذہبی تنظیموں کی کارروائیاں اس کے علاوہ ہیں جس کی وجہ سے بھی بڑا نقصان اب تک واقع ہوچکا ہے ظاہر ہے کالعدم مذہبی تنظیموں کا نیٹ ورک ہنوز فعال ہے اور ان کی کارروائیاں آئندہ بھی ممکن ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کی جانب سے بھارتی مداخلت کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن اس دعوے کو سفارتی سطح پر بظاہر ثابت نہیں کیا جاسکا ہے ۔ نامعلوم کہ حکومت اس ضمن میں کس مصلحت کا شکار ہے جبکہ بھارت کے خیر خواہ تو بہت سارے ہیں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کے حالیہ دورے کے بعد بھارت کی وکالت اور دلالت کی ہے کہ امریکہ کو بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پیش نہیں کئے گئے ہیں ۔ عالم یہ ہے کہ حکومت کا پیکج اور زخموں پر مرہم رکھنے کی نوبت تاحال نہیں آئی جبکہ زخم سڑ رہے ہیں ،دوریاں بڑھ رہی ہیں حکومت کو اگر این آر او ، چینی کے بحران اور دیگر معاملات سے فرصت ملے تو وہ ملک کی سالمیت اور استحکام پر توجہ دے ۔ حد یہ ہے کہ بلوچستان میں عدم تحفظ کی کیفیت میں لوگ شب و روز بسر کررہے ہیں ،کوئٹہ شہر کا کاروبار تباہ ہورہا ہے ،معاملات زندگی متاثر ہے ۔یہ حالات فوری پیش رفت اور توجہ کے مستحق ہے لیکن اس کی نزاکت پر توجہ نہیں دی جارہی ہے پیکج اگر بلوچستان کے مسئلے کا حل ہے تو اسے جلد سے جلد بروئے کار لایا جائے تاکہ صوبے میں امن اور قرار کی فضاءقائم ہو
۔حکومت اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو بلوچستان میں علیحدگی کی بجائے وحدت کی سوچ پیدا ہوگی اور یہ نا ممکن بھی نہیں ہے بس ضرورت اخلاص اور نیک ارادوں کی ہے جس کی اب تک کمی محسوس کی جارہی ہے ۔

Wednesday, October 28, 2009

سیستان حملہ، ایران کی قبل از وقت پاکستان پر الزام تراشی


ہم دیکھ رہے ہیں کہ عالمی شاطر اور دغا باز قوتیں جن کا سرخیل دو ر رواں میں یونائیٹڈ اسٹیٹ آف امریکہ ہے ،کو افغانستان میں واضح شکست کا سامنا ہے تاہم جاتے جاتے امریکی نیت کا فطور یہ بتارہا ہے کہ وہ پاکستان کو برباد کرنے کا تہیہ کر چکا ہے ملک کے اندر تو پاکستان کے دوستوں کو دشمن بنالیا گیا ہے سردست امریکہ پاکستان کو خطے میں تنہاءکرنے کی پالیسی پر بھی گامزن ہے ۔ممکن ہے یہ رائے درست نہ ہوتا تاہم گمان یہ کہتا ہے کہ پاکستان اور ایران کے درمیان غلط فہمیاں پیدا کرنے کی مکروہ سازشیں ہورہی ہیں ۔ سازشوں کے اس جال میں ایک مثال اتوار اٹھارہ اکتوبر کو ایران کے صوبے سیستان کے شہر زاہدان میں پاسداران انقلاب اور مقامی عمائدین کے مجلس میں خودکش بم دھماکہ کی پیش کی جاسکتی ہے جس میں چالیس سے زائد افراد بشمول پاسداران انقلاب کے اعلیٰ کمانڈرز ہلاک ہوئے ، اس حملے میں مقامی افراد بھی ہلاک ہوگئے گویا ان جان لیوا حملوں کے بعد فوراً بعد عوامی اورانقلابی ایرانی حکومت پاکستان پر برس پڑی اور چند ساعتوں کے اندر اندر امریکہ و برطانیہ سمیت پاکستان کی انٹیلی جنس اداروں کو مورد الزام ٹھہرایا ۔ مذکورہ ہلاکت خیز واقعہ کی ذمہ داری جنداللہ نامی عسکریت پسند تنظیم نے بلا توقف قبول کرلی تھی مگر پاکستان کے حوالے سے ایرانی حکومت کو ذرا تحمل اور محتاط رویہ اپنانا چاہیئے تھا ۔ ایران ایک ذمہ دار ملک ہے اور انہیں ذمہ داری کا مظاہرہ ہی زیب دیتا ہے یہ حقیقت منظم اور عوامی ایرانی حکومت پر روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان کی طرح ایران کی سرحدیں بھی اس طرح نہیں کہ ان پر ہمہ وقت پہرہ لگایا جاسکے ، پاکستان خاص کر بلوچستان کا افغانستان کے ساتھ طویل سرحدی جڑاﺅ کے باعث بہت ساری مشکلات کا سامنا ہے نیٹو اور افغان حکومت یہ الزام لگاتی ہے کہ پاکستان طالبان کو سپورٹ کررہا ہے اور سرحد پار کارروائیوں کے لئے بھیج رہا ہے اسی طرح انہیں طویل سرحدی پٹی کو بلوچ مزاحمت کار اپنےمقاصد کے لئے استعمال کررہے ہیں یعنی بلوچ عسکریت پسند آجاسکتے ہیں۔


یہ حقیقت ہے کہ بلوچستان اور کوئٹہ میں تخریبی کارروائیاں معمول کا حصہ بن چکا ہے چنانچہ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اسی المیہ اور مشکل سے مملکت ایران کو بھی سامنا ہے ایک جانب افغان سرحد اور دوسری جانب بلوچستان کے ساتھ طویل سرحد کے ساتھ جڑا ہوا ہے ۔ بلوچستان کے اضلاع چاغی، واشک، پنجگوراور تربت کے علاوہ پانی کے ذریعے گوادر سے بھی سرحد لگتی ہے اور یہ وسیع کے رقبے کے حامل اضلاع ہیں ۔دراصل جنداللہ کے کارندے پہاڑوں اور دشوار گزار راستوں کا انتخاب کرتے ہیں دوسری بات جو واقعی ناقابل فہم اور پیچیدہ نہیں ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے صوبے بلوچستان اور ایرانی صوبے سیستان بلوچستان کے سرحد پر آباد بلوچ دوہری شہریت کے حامل ہے اگر شہریت نا بھی ہو تو سرحد کے آر پار آنا جانا ان لوگوں کے لئے کوئی مشکل عمل نہیں ہے دونوں اطراف کی آبادیاں باہمی رشتوں میں منسلک ہے ، خونی رشتے ہیں تہذیبی ارتباط موجود ہے حالانکہ ایران نے 2007 میں دہشت گردی کے خدشے کے پیش نظر سرحد پر 700کلو میٹر لمبی کنکریٹ کی دیوار تعمیر کرلی جس پر بلوچستان کی قوم پرست جماعتوں نے تحفظ کا اظہار بھی کیا ۔گویا اس تناظر میں یہ دعویٰ قبل از وقت ہے کہ پاکستان بھی ایران میں عدم استحکام کا خواہاں ہے اگر ایسا کچھ ہے تو ایرانی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان وجوہات اور محرکات کو بھی بروقت سامنے لاتی کہ پاکستان کیوں ایک آزاد ملک کو غیر مستحکم کرنا چاہتا ہے ۔ اگر چہ اس نوعیت کے الزامات ایران پر عوامی سطح پر لگ چکے ہیں کہ ایران پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے لیکن کوئی سنجیدہ فکر انسان اسے درست تسلیم نہیں کرے گا ۔تاہم یہ حقیقت ہے کہ افغانستان میں طالبان کی عناد میں مبتلا ایران نے بغض معاویہ میں شمالی اتحاد کو گلے رکھا تھا یہاں تک کے نائن الیون کے واقعہ کے بعد ایران بھی امریکہ کے ذریعے طالبان حکومت کے خاتمے اور انہیں ملیا میٹ کرنے کا خواہاں تھا بلکہ افغانستان پر امریکی کود تا میں جہاں پاکستان نے تابعداری کا مظاہرہ کیا وہیں ایران نے شمالی اتحاد کی افغان قوتوں اور تنظیموں کو ہر لحاظ سے کمک فراہم کیا ´افغانستان کے آج کی صورتحال میں ایران کی کوتاہیاں اور طالبان سے ازلی عناد کا بھی شامل ہے ۔غرضیکہ امریکہ نے افغانستان پر قبضہ کرلیا اور خطے میں مستقل پریشانی بے اطمینانی نے جڑ پکڑ لیا ۔یہی امریکہ اور برطانیہ بھوکے مگر مچھ کی طرح ایران کو بھی تاڑ رہا ہے لہٰذا اس پس منظر میں جنداللہ نامی عسکریت پسند تنظیم کی تار و پود اور کڑیاں پوشیدہ نہیں ہے جس کا اظہار جنداللہ کے سربراہ مالک ریکی خود کرچکے ہیں کہ ان کی امریکہ سمیت کئی ممالک کے سفراءسے ملاقاتیں ہوچکی ہیں ان کا کہنا ہے کہ سیاسی کو کامیابی سے ہمکنار کرنے کے لئے رابطے ضروری ہیں ۔عبدالمالک ریکی کا افغانستان آنا جانا رہتا ہے ، زاہدان بم دھماکے کے بعد پاکستان میں ایران کے سفیر ماشاءاللہ شاکری نے یہ الزام عائد کیا کہ جنداللہ کا سرغنہ عبدالمالک ریکی پاکستان میں ہے اسی طرح ایران نے پاکستانی سفیر کو دفتر خارجہ طلب کرکے خودکش حملے پر احتجاج کیا یہی نہیں بلکہ ایرانی صدر محمود احمدی نژاد نے یہاں تک کہا کہ انقلابی گارڈز پر خودکش حملہ کرنے والوں کو پاکستانی سیکورٹی ایجنسیوں کی معاونت حاصل تھی ساتھ احمدی نژاد نے مطالبہ کیا کہ اس حملے میں جنداللہ کے مددگاروں کو ایران کے حوالے کیا جائے اور ملزمان کو پکڑنے میں تہران کی مدد بھی کیا جائے اور ملزمان کو پکڑنے میں تہران کی مدد بھی کی جائے نیز ایران حکومت نے پاکستان سے از خود کارروائی کرنے کی اجازت بھی طلب کرلی ہے ۔ دریں اثناءترجمان دفتر خارجہ بلکہ صدر آصف علی زرداری نے ایرانی ہم منصب کو اس ضمن میں ہر ممکن تعاون کی یقین دہانی کرائی اور یہ باور کرایا کہ پاکستانی سرزمین ایران کے خلاف استعمال ہورہی ہے اور نہ ہی ہونے دیں گے ۔ دفتر خارجہ نے قرار دیا کہ کچھ عناصر پاک ایران تعلقات خراب کرنا چاہتے ہیں۔ وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم رئیسانی نے اس حملے کے بعد کہا ہے کہ پاکستان بالخصوص بلوچستان کے عوام اور ایرانی حکومت اور وہاں کی عوام کے درمیان نہایت گہرے، تاریخی اور ثقافتی تعلقات قائم ہیں جو صدیوں پر محیط ہیں اور ایران و پاکستان کو دہشت گردوں کے خلاف مربوط لائحہ عمل طے کرنا چاہیئے .ایران کا یہ کہنا درست نہیں ہے کہ جنداللہ کو پاکستان یا اس کے اداروں کا تعاون حاصل ہے البتہ یہ کہنا غلط بھی نہیں ہے کہ جنداللہ کا سربراہ پاکستان میں موجود ہے یا موجود رہا ہے یہ حقیقت ہے کہ عبدالمالک ریکی صوبائی دار الحکومت کوئٹہ تک آتے رہے ہیں اب یہ حکومت اور اداروں کی ناکامی ہے کہ ان کی سرزمین پر ایسے لوگ پاﺅں رکھتے ہیں ۔ جنداللہ کے سربراہ عبدالمالک ریکی کو امریکہ برطانیہ اور افغان پھٹو حکومت کا تعاون حاصل ہے اور یہ امر ایران سے مخفی نہیں ہے ۔


یاد رہے کہ سال 2007کے ماہ اگست میں پاکستانی فورسز نے ایران سے ملحقہ بلوچستان کے علاقے مند کے پہاڑوں میں کارروائی کرکے اکیس سرکاری اہلکاروں کو طویل مقابلے کے بعد بحفاظت بازیاب کرالیا تھا ۔ ان افراد کو مند سے پچاس کلو میٹر دور ایران کے سرحدی صوبے سیستان وبلوچستان کے شہر چاہ بہار کے قریب سے اغواءکرلیا گیا تھا جن میں دو ایرانی سیکورٹی اہلکار بھی تھے ان دو اہلکاروں کو اغواءکاروں نے قتل کردیا تھا تاہم دیگر مغویوں کو پاکستان کی حدود میں لے آئیں ۔ اس واقعہ کے بعد ایرانی حکومت نے حکومت پاکستان بروقت اطلاع دی جس پرسیکورٹی فورسز نے فوری طور پر اغواءکاروں کے خلاف کارروائی شروع کردی اس طرح مقابلے کے بعد مغویوں کو بازیاب چھڑالیا گیا اور17 اغواءکاروں کو حراست میں لے لیا ان افراد سے بھاری مقدار میں اسلحہ وگولہ بارود برآمد کیا گیا ۔ تفتیش کے بعد ملزمان نے جنداللہ سے تعلق کا انکشاف کیا ۔ کہا جاتا ہے کہ ان ملزمان میں ایک شخص عبدالمالک ریکی کا بھائی بھی تھا بعد ازاں حکومت پاکستان نے نہ صرف مغویوں کو با عزت طور پر ایرانی حکومت کے حوالے کردیا جو اپنے ملک بحفاظت پہنچ گئے بلکہ ملزمان کو بھی ایرانی حکومت کی تحویل میں دیا لہٰذا یہ تعاون بظاہر یہ بتاتا ہے کہ پاکستان ہر گز عسکریت پسندوں کو ایران کے خلاف استعمال نہیں کررہا کیونکہ اگر ایسا ہوتا تو یہ مذکورہ کارروائی عمل میں نہ لائی جاتی اور نہ ہی ایرانی سرکاری اہلکاروں اور ملزمان کو حکومت ایران کے حوالے کیا جاتا ۔ نیز عبدالمالک ریکی کے بھائی عبدالحمید ریکی کو بھی گزشتہ سال جون میں ایران کے حوالے کردیا تھا جو کہ اب بھی ایران کی تحویل میں ہے ۔ عبدالمالک ریکی کے بھائی کے لئے کوئٹہ اور صوبے کے مختلف علاقوں میں بلوچ نیشنل فرنٹ نے تحریل چلائی ان کے اصل نام کی بجائے اسے غلام حیدر رئیسانی کے نام سے پکارتے تھے اپنے مظاہروں میں حکومت پاکستان پر الزام لگاتے تھے کہ وہ بلوچستان کے شہری کو غیر قانونی طور پر ایران کے حوالے کررہا ہے اور ساتھ ان کا اب تک الزام یہ بھی ہے کہ ایرانی بلوچوں کے ساتھ ظلم روا رکھا جارہا ہے ، انہیں حقوق کی آواز بلند کرنے کی پاداش میں سولی پر لٹکایا جاتا ہے ۔ بلوچ نیشنل فرنٹ اور عبدالمالک ریکی کے تعلق کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ہے اور یہ پہلو بھی مد نظر رہے کہ عبدالمالک ریکی اور بلوچ مزاحمت کاروں کے درمیان رابطہ کی بازگشت بھی سنی گئی ہے بلکہ ایک مرتبہ تو عبدالمالک ریکی اور بعض بلوچ قوم پرستوں کی جانب سے ایران و پاکستان کے بلوچوں کے حقوق کے لئے جدوجہد کی باتیں بھی سنی گئیں یہ بات غور طلب ہے کہ قوم پرست خیالات کے حامل تنظیموں اور مذہب کی پرچارک تنظیم کے سربراہ کے تعلقات تعلقات کار کس نوعیت کے ہیں ۔ یقینی بات ہے کہ بلوچستان کے عسکریت پسندوں کو افغانستان سے کمک چل رہی ہے ،بھلے وہ انکار کریں لیکن حقیقت یہی ہے کہ کیونکہ اس کے بغیر ان کی مسلح مزاحمتی تحریک چل نہیں سکے گی ۔خلاصہ کلام یہ ہے کہ ایران حکومت اپنے اس الزام سے رجوع کریں جو انہوں نے حکومت پاکستان پر عائد کیا ہے کہ مالک ریکی کو ان کی سرپرستی حاصل ہے ۔


سطور بالا میں یہ ذکر ہوچکا ہے کہ مالک ریکی پاکستان میں ضرورموجود ہوں گے جس کی تفصیل بیان کردی گئی ہے تاہم اختصار کے ساتھ یہ بیان کرنا بھیضروری ہے کہ مالک ریکی کی پیدائش بلوچستان کے ایران سرحد سے ملحقہ ضلع واشک کیتحصیل ماشکیل میں ہوئی ، ریکی قبیلے سے ان کا تعلق ہے جو کہ پاکستان اور ایران میںآباد ایک نمایاں بلوچ قبیلہ ہے ۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ایران کے شہر زاہدان اوربعد ازاں کراچی کے مختلف دینی مدارس میں حاصل کی ہے ۔مالک ریکی نے2002ءمیں اہلسنتکے حقوق کے لئے ایرانی حکومت سے مطالبات منوانے کے لئے سیاسی جدوجہد شروع کی اورجنداللہ کے نام سے تنظیم کی داغ بیل ڈال دی جس کے بعد نامعلوم وجوہات کی بناءپر2003ءمیں ایرانی حکومت کے خلاف عسکری جدوجہد شروع کی۔


یہ تحریر تصویری شکل میں بھی پوسٹ کردی ہے