Sunday, July 19, 2009

بلوچستان , غیر ملکی مداخلت

اخوندزادہ جلال نورزئی

jalal.nurzai@gmail.com
جب تک افغانستان پر سے امریکہ ، نیٹو اور بھارت کا منحوس سایہ نہیں ہٹتا اس وقت تک پاکستان بلکہ خطے میں ہمہ پہلو بہتری اور قرار نہیں آسکتا۔ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہورہی ہے اس کی وجوہات میں سے ایک بڑی وجہ ملک کے طالع آزما حکمران طبقے کی غلام ذہنیت اور مفادات ہیں اور یہ حقیقت تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ امریکہ کے لئے جو جنگ اب تک لڑی جارہی ہے ،وہ پاکستان کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے لہٰذا اس پس منظر میں بھارت کے ”بہترین دماغ “پاکستان کے لئے مزید مشکلات مسائل سوچ رہے ہیں ،بلوچستان اس تناظر میں انتہائی اہم مورچہ ہے جہاں سے پاکستان پر کاری ضرب لگائی جائی جاسکتی ہے اور بلوچستان کی جانب سے حکومت کے لئے دشواریاں پیدا کی گئی ہیں چنانچہ ان حالات میں اگر حکمران طبقہ مخلص ہے تو کم از کم اغیار کے پنجوں سے بلوچستان کو نکال لیں کیونکہ علیحدگی پسندوں کو عوامی حمایت حاصل نہیں ہے لیکن اگر تاخیری حربوں اور لیت و لعل کا روایتی سلسلہ رہا تو آزاد بلوچستان والے کسی حد تک اپنے ارادوں کی تکمیل کے لئے آگے کا سفر کرسکتے ہیں ۔ بھارت نے بلا شبہ بلوچستان پر توجہ مرکوز کر رکھی ہے اور مداخلت کررہا ہے مگر ہمارے کند ناتراش حکمران طبقہ سفارتی جنگ لڑ نہیں پارہے ۔البتہ وزیراعظم پاکستان سید یوسف رضا گیلانی نے گزشتہ روز شرم الشیخ میں بھارتی ہم منصب من موہن سنگھ سے بلوچستان کے حوالے سے بات کی ہے بقول وزیراعظم گیلانی کہ بھارتی وزیراعظم کو بلوچستان میں مداخلت کے شواہد پیش کردیئے گئے ہیں اور یہ یقین دلایا ہے کہ جلد ثبوت بھی پیش کردیئے جائیں گے۔اور افغان صدر حامد کرزئی (کٹھ پتلی) سے بھی بات کرلی ہے مزید برآں وزیر داخلہ رحمن ملک نے کابل میں حامد کرزئی سے اس تناظر میںملاقات کی جو کچھ ہم تک میڈیا کے ذریعے پہنچا ہے وہ یہ ہے کہ رحمن ملک نے افغان صدر کو سوات اور فاٹا سے گرفتار افغان دہشتگردوں کے حوالے سے آگاہ کیا ہے اور بقول رحمن ملک کہ انہوں نے افغان صدر سے رحمن ملک کی حوالگی کا مطالبہ کیا جس پر افغان صدر نے تعاون کی یقین دہانی کرائی ہے ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ یقین دہانیوں کی بجائے بروقت راست اقدام اٹھایا جائے جس تندہی کے ساتھ بھارت نے ممبئی واقعہ کے بعد اپنا سفارتی محاذ کھولا اور پوری دنیا میں پاکستانی مداخلت کا واویلا مچایا اور اپنی اس پروپیگنڈے میں بھارت کامیاب بھی رہا ہے تو کیوں نہ پاکستان حق بات کو جو ایک معروضی حقیقت ہے کہ دنیا کو سامنے پیش کریں اور بلوچستان میں اگر حکومت کے پاس شواہد او ر ثبوت موجود ہیں تو اس مسئلے کو بغیر کسی تاخیر کے عالمی سطح پر اٹھانا چاہیئے تاکہ افغانستان میں موجود قاض قوتوں کا تخریبی چہرہ عالم ِ انسانیت پر نمایاں ہوکیونکہ بالخصوص بھارت اپنے مذموم مقاصد اور عزائم کو بلوچستان میں پورا کرنا چاہتاہے دوسری طرف بلوچستان کے حوالے سے اب اسلام آباد کو سنجیدہ کا مظاہرہ کرنا چاہیئے کیونکہ بلوچستان کی سیاسی فضاءمفاہمت اور مصالحت کے لئے موافق ہے بس اس پر کام شروع کرنے کی ضرورت ہے قوم پرست جماعتیں شریک گفتگو ہوں گی وفاق اپنا اعتماد بحال کرے۔

بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) بلوچ قومی سیاست میں انتہائی اہم کردار کی حامل جماعت ہے ، جماعت کے سربراہ سردار اختر مینگل، بزرگ بلوچ قوم پرست رہنماءسردار عطاءاللہ مینگل کے فرزند ہیں عطاءاللہ مینگل کی شخصیت اور بلوچ سیاست میں اہمیت سے کون انکار کرسکتا ہے کہنے کا مقصد یہ ہے کہ بلوچستان نیشنل پارٹی نے اندرون خانہ پارلیمانی سیاست کا ارادہ و فیصلہ کرلیا ہے ۔ بی این پی مینگل 26اگست2006 کو نواب بگٹی کی ہلاکت کے بعد اسمبلیوں سے باہر آگئی تھی ما بعد 18فروری2008ءکے عام انتخابات کا بھی بائیکاٹ کیا لہٰذا اب بی این پی نے دوبارہ انتخابی سیاست کی جانب مراجعت کا فیصلہ کرلیا یعنی سیاسی عمل اور گفت و شنید کا عمل اب تقویت اختیار کرے گا ۔اس طرح نیشنل پارٹی بھی قدر آور جماعت ہے اٹھارہ فروری کے انتخابات کا بائیکاٹ کیا لیکن جلد ہی انتخابی سیاست کے مقاطعے کا فیصلہ واپس لے لیا حالیہ سینٹ کے الیکشن میں پارٹی کے مرکزی سینئر نائب صدر حاصل بزنجو سینیٹر منتخب ہوئے۔نیشنل پارٹی کی سوچ معتدل ہے جسے بلوچ تعلیم یافتہ طبقے کی حمایت حاصل ہے حال ہی میں سینیٹر حاصل بزنجو نے آزاد بلوچستان کے نعرے کے ضمن میں اپنا موقف بیان کیا ان کا کہنا ہے کہ وہ گریٹر بلوچستان کے حامی نہیں ہے بلکہ ان کی جدوجہد صوبائی خود مختاری کے لئے ہے ۔حاصل بزنجو نے صاف لفظوں میں کہہ دیا ہے کہ وہ نوابزادہ براہمداغ بگٹی اور نوابزادہ حیربیار مری کی سیاست کی حمایت نہیں کرسکتا ۔ چنانچہ حاصل بزنجو نے 73ءکے آئین میں ترامیم کی بات کی ہے کہ نیشنل پارٹی اوردیگر بلوچ جماعتوں نے حکومت سے آئین میں ترامیم کا مطالبہ کیا تھا اگریہ ترامیم کرلی جاتی ہیں تو بلوچستان کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے۔ اب حکومت کو آئین اور قانون کی زبان میں بات کرلینی چاہیئے ۔وہ آئین جس میں ذوالفقار علی بھٹو نے من پسند ترامیم کر ڈالی ،جس میں جنرل ضیاءالحق مرحوم کے اپنے اقتدار کی طوالت کے لئے ترامیم کیں ،وہ آئین جسے پرویز مشرف نے آمریت کو تحفظ دینے کے لئے اوپر نیچے کردیا تو اس میں صوبائی خود مختاری کے دیرینہ اور جائز مطالبے کے حوالے سے ترامیم پر سنجیدگی سے بیٹھ کر غورو خوض کی راہ میں کیا چیز مانع ہے ؟ حکومت یہ راستہ اختیار کرے ۔ پیپلز پارٹی کے رہنماءوزیراعلیٰ بلوچستان تو1940ءکی قرارداد کی بات کرتے ہیں اور مکمل صوبائی خودمختاری کے حصول کا اظہار انہوں نے متعدد بار کیا ہے ۔ اگر ایسا فی الواقعی ہوتاہے تو بہت جلد آزادی اور علیحدگی کی باتیں دم توڑ دیں گی اور بھارت شرمندہ رہ جائے گا ۔ اس حوالے سے گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کا کہنا بہت توجہ اور اہمیت کا حامل ہے جس میں گورنر نے علیحدگی کی سوچ کو یکسرمسترد کردیا ہے ۔


نواب ذوالفقار علی مگسی کے الفاظ من و عن اس طرح ہیں” ان (گورنر مگسی) کا مزاحمت کاروں سے کوئی رابطہ نہیں ہے ارو اگر کوئی شخص بلوچستان کوپاکستان سے الگ کرنے کا مطالبہ کررہا ہے تو میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ وہ کس کی نمائندگی کررہے ہیں؟ کیا ان کو پشتون قوم ، ہزارہ قوم، آباد کار ، مگسی کا کسی اورقوم نے انہیں اس بات کا اختیار دیا ہے کہ وہ علیحدگی کا مطالبہ کریں ۔ براہمداغ بگٹی اور حیربیار مری کے بیانات سے بلوچستان کبھی الگ نہیں ہوگاپاکستان اوربلوچستان لازم و ملزوم ہیں بلوچستان میں علیحدگی کی کوئی تحریک نہیں ہے ایک یا دوافراد یا ایک جماعت کے کہنے سے بلوچستان الگ نہیں ہوسکتا‘‘۔

دوسری جانب وزیراعلیٰ بلوچستان نواب محمد اسلم خان رئیسانی بھی کہہ چکے ہیں کہ” حکومت مفاہمتی عمل کے لئے امن وامان کو داﺅ پر نہیں لگاسکتی ، مزاحمت کا راستہ اختیار کرنے والے مذاکرات شروع کریں ان سے ہر ممکن تعاون کیا جائیگا کیونکہ حکومت بلوچستان کے مسئلے کو سیاسی طریقے سے حل کرنا چاہتی ہے اور اس حوالے سے رضا ربانی کی قیادت میں قائم کمیٹی کام کررہی ہے اور جلد تمام فریقین کو اعتماد میں لیکر بلوچستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے آل پارٹیز کانفرنس بلائی جائے گی“۔ وزیراعلیٰ بلوچستان صوبے کے وسائل پر اختیار چاہتا ہے ان کا کہنا ہے کہ ” ریکوڈک اور سیندک کے منصوبے بلوچستان کے حوالے کئے جائیں تاکہ انہیں ہم خود چلائیں‘‘ اسی طرح گوادر پورٹ پر اختیار حاصل کرنا وزیراعلیٰ کے پیش نظر ہے گویابات صوبائی خود مختاری کی ہے جو دینی یقینی نہیں بنائی جارہی ہے۔

بلوچستان کا مسئلہ افغانستان کی صورتحال سے مربوط ہوچکا ہے۔افغانستان پر قابض قوتوں کی موجودگی تک شائد یہ ڈورالجھی ہی رہے افغانستان کے جنوبی صوبے ہمند میں امریکی آپریشن ”خنجر“ جاری ہے آپریشن میں پاکستان کی کمک بھی شامل ہے اور پاکستان خوفزدہ بھی ہے کہ کہیں مجاہدین سرحد پار کرکے پاکستانی حدود میں داخل نہ ہو۔ سیکورٹی فورسز نے پاک افغان سرحد پر اپنے طو رپر حفاظتی بندوبست آپریشن خنجر سے قبل ہی کرلیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس قدر طویل اور دشوار گزار سرحد کو سیل کرکے پہرہ لگانا ان کی بس کی بات نہیں ہے ۔ وزیر داخلہ رحمن ملک فرماچکے ہیں کہ اسامہ بن لادن افغانستان کے علاقے کنڑ میں موجود ہیں اور وہیں سے پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہے ہیں آخر کیوں اسامہ بن لادن پاکستان کے خلاف کارروائیاں کررہا ہے اس پر وزیر داخلہ کو سوچنا چاہیئے ، اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ امریکہ جو چاہے گا وزیر داخلہ اور ان کے بڑے چھوٹے دوست و مہربان وہیں کریں گے۔ وزیر داخلہ کو تشویش ہے کہ طالبان اسلحہ سمیت وزیرستان اور بلوچستان میں داخل ہورہے ہیں اور نیٹو سے کہا ہے کہ وہ پاک افغان سرحدپر اگر دیوار تعمیر نہیں کرسکتی تو کم از کم خاردار تار لگائے تاکہ جنگجو پاکستان میں داخل نہ ہوسکیں۔ دیوار کی تعمیر اور خار دار تار اب امریکہ اور نیٹو کے پیش نظر ضروری نہیں ہے طالبان اگر پاکستان میں داخل ہوتے ہیں تو اس سے بھی انہیں کوئی سروکار نہیں ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ قابض افواج چاہتی ہیں کہ طالبان یا دوسرے جنگجو پاکستان ہی میں داخل ہو ان کا مقصد پاکستانی افواج کے ذریعے ان کے خلاف کارروائی کرنا ہے اور امریکہ چاہتا ہے کہ یہ جنگ پاکستان کی حدود ہی میں جاری رہے۔

حکمران طبقہ مزید معذرت خواہانہ طرز عمل ترک کردیں ،قومی مفاد پر سخت رویہ اپنا ئیں پورے ملک میں بیرونی سازشیں ہورہی ہیں اور بلوچستان میں کئی ممالک کی خفیہ ایجنسیاں کام کررہی ہیں افغانستان سے ان کے ذریعے اسلحہ اور دیگر سازو سامان بدامنی پھیلانے کے لئے پہنچایا جارہا ہے۔ وقت اور حالات کا تقاضا یہ ہے کہ جس کل جماعتی کانفرنس نوید سنائی جارہی ہے اسے جلد طلب کیا جائے اس شرط کے ساتھ کہ کانفرنس میں کم از کم بلوچستان نیشنل پارٹی مینگل اور نیشنل پارٹی کی موجودگی ضرور ہونی چاہیئے اور مذاکرات کا عمل اس وقت تک جاری رکھا جائے جب تک کہ فریقین کسی حتمی نتیجے پر پہنچ نہیںپاتے۔

Sunday, July 5, 2009

بلوچستان عالمی طاقتوں کے نرغے میں

افغانستان میں اس وقت امریکہ سمیت دنیا کی بڑی طاقتیں موجود ہیں جنہوں نے کشت و خون کا بازار گرم کر رکھا ہے ، بے گناہ شہری جدید حربی ساز و سامان سے لیس دنیا کی منظم آرمی کی قیادت اور انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں ،افغانستان امریکی مقبوضہ ہے مگر اس قبضہ گیری پر دنیا نے چپ سادھ لے رکھی ہے ، پاکستان کی دینی جماعتوں اور تحریک انصاف کو چھوڑ کر دیگر سیاسی جماعتوں نے اس جانب خاموشی اختیار کر رکھی ہے بزعم خیش قوم پرست جماعتیں نے دوغلا معیار قائم کر رکھا ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ یہ جماعتیں خود کو افغانستان میں امریکہ کے ساتھ شریک اقتدار تصور کرتی ہیں، مغالطے اور فریب میں مبتلا ہیں حالانکہ امریکہ سے انہیں سوائے چند ٹکوں ،رسوائی ، شرمندگی اور ندامت کے کچھ نہیں ملے گا ، اگر واقعی ضمیر زندہ ہو ؟ ۔ امریکہ نے فاٹا میں عملاً جنگ شروع کر رکھی ہے ،امریکی جاسوس طیارے شہریوں کے چیتھڑے اُڑارہے ہیں لیکن یہ طبقات انگشت بہ لب ہیں ، اب اس جنگ کا دائرہ بلوچستان کے پشتون علاقوں تک پھیلانے کی منصوبہ گری کی جارہی ہے امریکہ کو عوامی تائید کا یقین دلایا جاچکا ہے ، اطلاعات محو گشت ہیں کہ سرکار نے اس ضمن میں ہوم ورک مکمل کرلیا ہے ممکن ہے کہ بہت جلد امریکی وفادار بلوچستان کو بھی میدان جنگ میں تبدیل کردیں اور یہ سارا الزام مذہبی جماعتوں کو دیدیا جائےگا حالانکہ مذہبی جماعتیں یہ باور کرارہی ہیںکہ صوبے میں طالبان کے تربیتی مراکز ہیں نہ ہی طالبان موجود ہیں مگر اس کے باوجود اگر محض امریکی خوشنودی ،خواہش اور حکم و ہدایت کے مطابق آپریشن کا آغاز کیا جائےگا تو اس کے نتائج ِبد کے لئے حکومت اور ان تمام جماعتوں اور قوتوں کو بھی تیار رہنا ہوگا اگر سابق سوویت یونین کے تالی چٹ یہ سوچتے ہوں گے کہ امریکہ ان کے سروں پر سونے کے تاج رکھے گا تو یہ ان کی خام خیالی اور نا فہمی ہے ،برعکس انجام یہ ہوگا کہ امریکہ کے یہ نئے یار اپنے لئے جائے پناہ ڈھونڈیں گے اور یہ ڈالر و دیگر منفعتیں ان کے کوئی کام نہ آسکیں گی ، یہ تسلیم کیوں نہیں کیا جاتا ہے کہ انگریزوں اور روسیوں کے بعد اب سرزمین افغانستان امریکی مقبوضہ ہے ، امریکہ سیاہ و سفید کا مالک ہے ۔افغانستان میں بیٹھ کر سب سے پہلا کام امریکہ کے پیش نظر پاکستان کو غیر مستحکم کرنا ہے ، ملک کی افواج اور عوام کو اپنے ہی ملک کے اندر متصادم کرنا امریکی چال کا نتیجہ ہے اور اس عمل کو جس قدروسعت دی جائے گی اس قدر پاکستان دلدل میں دھنستا جائے گا ۔پشتون نسل پرست جماعتیں عملاً امریکہ کی دست و باز بنی ہوئی ہیں۔28جون کو کوئٹہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل )کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے سے بلوچ قوم پرست جماعت نیشنل پارٹی کے سینئر نائب صدر حاصل خان بزنجو نے خوب توجہ دلائی ۔کاش کوئی اپنے مفادات سے ہٹ کر اجتماعی مفاد کو مقدم رکھ کر اس پہلو پرسوچے ۔ حاصل بزنجو نے کہا کہ ”آج دنیا کی تمام بڑی طاقتیں بلوچستان کے آس پاس بیٹھی ہوئی ہیں ( اشارہ افغانستان) یہ طاقتیں دنیا میں جہاں بھی گئی ہیں وہاں بربادی کے سوا کچھ بھی نہیں ہوا اور ان طاقتوں کا سب سے بڑا ٹارگٹ افغانستان اور بلوچستان ہے چنانچہ اس وقت بلوچستان نیشنل پارٹی اورپشتونخوا ملی عوامی پارٹی کی قیادت پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے اور انہیں سوچنا ہوگا کہ ان حالات میں اپنی ذمہ دار کس طرح پوری کریں “ سینیٹر حاصل بزنجو بھانپ گئے کہ امریکہ خطے میں کن مذموم مقاصد کے لئے طاقت کے زور پر آکر بیٹھ گیا ، بزنجو صاحب نے اس پہلو کی اپنی فہم کے مطابق نشاندہی کردی ہے مگر یہ کافی نہیں ہے بلکہ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان کی جماعت نیشنل پارٹی صوبائی خود مختاری کے ساتھ ساتھ امریکی سامراج کے خود خوفناک ارادوں اور منصوبوں کے خلاف تحریک چلا کر رائے عامہ ہموار کریں ۔ سامراج کی نگاہیں بلاشبہ بلوچستان کے وسائل اور ساحل پر ہیں ،سامراج بلوچستان کی تزویراتی (سٹرٹیجک)حیثیت اور اہمیت سے آگاہ ہے لہٰذا یہ خطہ سامراج کے لئے سونے کی چڑیا ہے ۔اس جانب بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل )کو بھی وسیع نظری سے غور کرنا ہوگا کیونکہ حکومت کے خلاف تو سڑکوں پر احتجاج کا حق سب کو حاصل ہے مگر امریکہ اور نیٹو کے خلاف کسی کو ہونٹ ہلانے کی بھی جرات اور اجازت نہیں ہوگی ۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی کا تو خیر امریکہ سے عقیدت اور اُنس ہے کیونکہ امریکہ نے ان کے مقبول افغانستان کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردیا ہے اور وہاں ایک جمہوری آئین بناکر دیدیا ہے ۔ بات یہ ہے کہ افغانستان امریکی کالونی و مقبوضہ ہے جس کے بعد آئین اور ترقی کوئی معنی نہیں رکھتا ، جمہور کی رائے افغانستان میں سرے سے وجود نہیں رکھتی ،ایک ملک جہاں چالیس ممالک کی افواج موجود ہو ں،جہاں بزور شمشیر چند افراد کو اقتدار کے مسند پر لاکر بٹھا دیا گیا ہو وہاں کونسا آئین اور کس طرح کی جمہوریت ہوتی ہے؟۔حقیقت یہ ہے کہ افغانستان میں عالمی بد معاشوں نے توپ و تفنگ سمیت آکر ڈھیرا ڈال دیا ہے جس کو افغان حکومت کہا جاتا ہے وہ دراصل ان بدمعاشوں کی خدمت پر مامور ہیں یہ حضرات چاپلوسی کے علاوہ کسی بھی مسئلے پر رائے زنی کی قدرت بھی نہیں رکھتے ۔اگر امریکہ افغانستان سے بے مراد نکلتا ہے تو یہ جمہوریت کے امین اور آئین کے پاسدار دور بین میں بھی نظر نہیں آئیں گے۔ لب لباب یہ ہے کہ عوامی نیشنل پارٹی اور پشتونخوا ملی عوامی پارٹی خطے میں امریکی مفادات کے لئے رائے عامہ ہموار کرنے کے کام پر کاربند ہے ۔ بلوچ مسلح تنظیموں کو بھی بھارت اور امریکہ کے فریب سے بچنے کی ضرورت ہے کیونکہ سردست مفادات امریکہ کے ہیں اور امریکہ ہی جنگ لڑرہا ہے امریکہ نے اگر اس خطے میں پنجے گاڑ لئے تو پھر کسی کی بھی خیر نہیں ہوگی ، شائد حاصل بزنجو کے کہنے کا مقصد بھی یہی ہوتاہم نواب زادہ حیربیار مری نہ جانے کس خوش فہمی میں مبتلا ہے کہ وہ امریکی کی غلامی کو بہتر سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ”کم از کم امریکہ تو ہمارا قومی تشخص ختم نہیں کرے گا جبکہ پنجاب ہمارے وسائل کو بھی لوٹ رہا ہے اور قومی تشخص کو بھی ملیا میٹ کررہا ہے جو خود امریکہ کا غلام ہے “۔ حیربیار مری کے اس جذباتی خیال پر صرف اتنا کہا جاسکتا ہے کہ اگر پنجاب بالادست اور وسائل لوٹ رہا ہے تو امریکہ اس سے بڑی برائی ہے امریکہ تو قوموں اور اس کے وجود کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش بھی کرچکا ہے اور یہ عمل عراق میں اور ہمارے پڑوس افغانستان میں آج بھی جاری ہے ، ویتنام میں بدترین آرمی ایکشن،ہیروشیما اور نا گا ساگی پر ایٹم بم گرانے کا گھناﺅنا عمل نہیں بھولنا چاہیئے ۔ پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے مرہون منت امریکہ2001 سے اب تک افغانستان میں موجود ہے یہ تعاون حاصل نہ ہوتا تو شاید افغانستان کی صورتحال مختلف ہوتی اٹھارہ فروری2008 کے عام انتخابات کے نتیجے مییں بننے والی حکومت بھی اپنے پیش رو کی پالیسیوں کو جاری و ساری رکھنے پر مجبو رہے پاکستان اہم سپلائی لائن ہے امریکہ چاہتا ہے کہ کسی کا سہارا لئے بغیر خطے پر کنٹرول حاصل کرنے سے طویل منصوبوں کو کم مدت میں پایہ تکمیل تک پہنچایا جاسکتا ہے یقینا یہ امر مشکل ہے تاہم امریکہ پاکستان پر کنٹرول حاصل کرنے کا خواہاں ہے جس کے لئے پاکستانی فورسز کو ملک کے اندر الجھانا ان کے پیش نظر ضروری ہے کراچی چمن سپلائی لائن کی حفاظت کے لئے فکر مند ہے قلعہ بداللہ اور صوبے کے بلوچ علاقوں میں نیٹو کے لئے سازوسامان لے جانے والے ٹرالروں پر چند ایک حملے ہوچکے ہیں ،کون کررہا ہے اس بابت وثوق سے نہیں کہا جاسکتا تاہم اگر صوبے میں طالبان کی سرکوبی کے نام پر کسی قسم کی کارروائی شروع کی جاتی ہے تو لا محالہ اس کا شدید رد عمل پیدا ہوگا اور اس دوران کراچی چمن سپلائی لائن متاثر ہوگا اور اسی اثناءمیں امریکہ خود حملے شروع کردے گا ، انجام کیا ہوگا یہ معلوم نہیں ہے البتہ انتشار اور لاقانونیت کی عفریت پاکستان کے اس حصے کو بھی حصار میں لے لیگا اور اس کے آثار سرحدی علاقوں میں ہلمند کارروائی کے بعد کچھ کچھ دکھائی دینے لگے ہیں ۔ افغان صوبہ ہلمند میں اس وقت امریکہ چار ہزار آرمی کے ساتھ ویتنام کے بعد بڑی فوجی کارروائی میں مصروف ہے جس کا لازمی نتیجہ یہ برآمد ہوگا کہ طالبان دفاعی حکمت عملی کے تحت پاک افغان سرحد کا رخ کریں گے۔اس خطرے اور خدشے کے پیش نظرپاکستان کے فوجی حکام نے افغانستان کے ساتھ نوشکی ، چاغی اور چمن میں اپنی سرحدیں سیل کردیں اور طالبان کا راستہ روکنے کے لئے اپنی دانست میں تیاریاں مکمل کرلی ہیں ۔طالبان کو روکنا سرحدوں کو بند کرنے سے نا ممکن ہے یہ ایک فطری بات ہے کہ سینکڑوں کلو میٹر طویل سرحد پر کسی کے آنے جانے اور نقل و حمل روکنا فوج کے بس کی بات نہیں ہے لہٰذ ا طالبان اگر اپنی دفاعی حکمت عملی کے تحت پاکستان کی حدود میں گھسنے کی کوشش کریں گے تو امریکہ ان علاقوں میں ان کی سرکوبی کے لئے کارروائی کا آغاز کرے گا ۔ یہ جو ایک عرصہ سے بلوچستان میں ڈرون حملوں کی باز گشت سنائی دے رہی ہے شاید آئند چند عرصے میں یقین میں بدل جائے ۔ امریکی جاسوس طیاروں کے بلوچستان کے اندر کارروائی کا اندیشہ موجود ہے ۔ادھر منگل کے روز(3جون2009) بلوچستان کے ضلع قلات کے علاقے سوراب میں میں نیٹو سپلائی کنٹینر پر حملے کا واقعہ پر ہمہ پہلو غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس واقعہ میں چار افرا دہلاک اور گیارہ زخمی ہوئے ۔ بم دھماکے کا واقعہ نیشنل ہائی وے پر موجود ایک ہوٹل کے باہر پیش آیا،سفید رنگ کی ایک آلٹو کار آکر رکی جس کے ساتھ ہی زور دار دھماکہ ہوا ، دھماکے سے ہوٹل ، چار دکانیں مکمل طور پر تباہ ہوگئیں تین ٹرالرز اور دو مزدور گاڑیوں کو نقصان پہنچا۔ ڈی آئی جی خضدار غلام رسول ڈومکی نے اس دھماکے کو خودکش قرار دیا ، اخبارات میں بعض عینی شاہدین سے متعلق چھپا ہے کہ گاڑی آکر رک گئی اور ایک شخص گاڑی سے اتر کر موبائل فون پر بات کررہا تھا اور جونہی اس نے گاڑی کا دروازہ بند کردیا تو دھماکہ ہوا بہر حال ٹارگٹ نیٹو کے لئے سامان لے جانے والے ٹرالر ہی تھے۔ پیش ازیں بھی ان علاقوں میں ٹرالروں پر فائرنگ کے واقعات رونما ہوچکے ہیں اور ایک ٹرالر ڈرائیور بھی ہلاک ہوا۔ پشتون قوم پرست کہتے ہیں کہ پاکستان افغانستان (مقبوضہ) میں مداخلت کررہا ہے تاکہ افغان حکومت کو غیر مستحکم کیا جاسکے ، حیرت ہے امریکہ افغانستان میں داخل ہے ان کے شر سے خواتین و بچوں سمیت کوئی بھی افغان محفوظ نہیں ہے اور الزام فقط پاکستان کو دیا جاتا ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ افغان حریت پسند تنظیمیں مسلح جدوجہد کے ساتھ ساتھ افغانستان میں عوامی احتجاج پر توجہ مرکوز کریں تاکہ افغانستان کے اندر غیر ملکی افواج کے خلاف عوام منظم ہو اور سیاسی پلیٹ فارم سے سرزمین کی آزادی کے لئے عوامی سطح پر جدوجہد کیا جائے اس عمل سے رفتہ رفتہ افغانستان کے طول و عرض میں افغان عوام نامرد امریکہ اور نیٹو افواج کی واپسی اور خو د مختار افغانستان کا مطالبہ زور پکڑے گا ۔ عوام کے احتجاج سے قابض قوتوں کے داشتاﺅں کاچہرہ بھی بے نقاب ہوگا اس وقت تو عالم یہ ہے کہ طالبان ہی کو ظالم اور درندے باور کرایا جارہا ہے اور امریکی قبضہ گیری اور خون آشامی پر دنیا عالم نے خاموشی اختیار کر رکھی ہے لہٰذا افغان عوام کو ملک کی آزادی ، خود مختاری اور بقاءکے لئے کوچہ و بازار میں لکھنا چاہیئے، دنیا کی راست گو حریت پسند عوام افغانستان کی آواز میں ضرور آواز ملائیں گے۔