Tuesday, May 4, 2010

بلوچستان کے بجھتے چراغ

تحریر:ا خوندزادہ جلال نورزئی
jalal.noorzai@gmail.com
جامعہ بلوچستان کے شعبہ ابلاغیات کی اسسٹنٹ پروفیسر ناظمہ طالب کی بہیمانہ ٹارگٹ کلنگ کے بعد بلوچ مسلح انتہاءپسند تنظیموں کا انتہائی بھیانک چہرہ سامنے آچکا ہے ۔ اس واقعہ کے بعد فکر و خیال اور ترجیحات کے لحاظ سے بلوچ جماعتوں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان خط تقسیم کھنچ گئی ہے ، افسوسناک امر یہ ہے کہ پروفیسر ناظمہ کا قتل مسلح تنظیموں سمیت بلوچ نیشنل فرنٹ اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے لئے کامیابی کا لمحہ ہے مگر اس سنگدلانہ واردات کی مذمت واضح انداز میں نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے بھی نہیں کی، دونوں جماعتوں نے مصلحت کی چادر اوڑھ رکھی ہے ، یہ طرز عمل یہ پتہ دیتا ہے کہ مذکورہ دونوں جماعتیں اس قتل پر راضی اور شافی ہے ان واقعات کا جو المناک نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں وہ یہ ہے کہ صوبے میں علم کی شمع بجھنے کو ہے ، اگر یہ شمع بجھ گئی تو بی این پی کے مسٹر حبیب جالب کی سیاسی باتوں الزامات بے بجا تہمتوں پر کوئی کان نہیں دھرے گا کیونکہ کوئی سوچنے اور سمجھنے والا نہیں رہے گا اگر ان کا یہ خیال ہے کہ بلوچستان بس آزاد ہونے والا ہے تو انہیں صرف ان الفاظ میں جواب دیا جاکستا ہے کہ ”دلی ہنوز دور است“ ۔ لہٰذا احتجاج اور سیاست کا قابل قبول راستہ اختیار کیا جانا چاہیئے ۔کل کلاں اگر سیاست کا پہیہ کسی اور طرف گھومتا ہے تو پھر کسی کی ہمدردی حاصل نہیں کی جاسکے گی اور اسداتذہ کو قتل کرکے صوبے کی نوجوان نسل کو جس نقصان کا سامنا ہوگا اس کی تلافی بھی ممکن نہیں ہے ۔

کسی نے اساتذہ کے قتل کے حوالے سے کیا خوب کہا ہے کہ ” معاشرے سے علم کے چراغوں کا بجھانے کا جو عمل علم دشمنوں نے شروع کیا ہے اس پر اہل نظر انسان دوست ، جمہوریت دوست اور بلوچستان کی آئندہ نسلیں جامعہ بلوچستان کے در و دیوار سے لپٹ کر روئیں گی “ ۔میں یہ کہوں گا کہ صرف جامعہ بلوچستان ہی نہیں بلکہ صوبے کے ان علاقوں کے تعلیمی اداروں سے بھی لپٹ کر رویا جائےگا جہاں کوئی معلم جانے کو تیار نہیں ہے ۔ کسی نے آزادی اور حقوق کا جو راستہ اختیار کیا ہوا ہے اس کا منطقی نتیجہ بلوچستان کی بربادی ہے ناکہ خوشحالی ۔ نادیدہ عناصر پیش ازیں بلوچستان یونیورسٹی کے بزرگ پرو وائس چانسلر ڈاکٹر صفدر کیانی کو قتل کرچکے ہیں ، بلوچستان یونیورسٹی کے شعبہ لائبریری سائنسز کے سربراہ پروفیسر خورشید انصاری کے خون ناحق سے ہاتھ رنگین کرچکے ہیں ۔ تعمیر نو ماڈل ہائی اسکول کے پرنسپل پروفیسر فضل باری کو پیوند خاک کیا گیا اور کئی سینئر معلمین کو موت کے گھاٹ اتارا جاچکا ہے ۔ نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ نشان زد قتل کے واقعات کے پیش نظر جامعہ بلوچستان سے اب تک پچیس سینئر ترین پی ایچ ڈی اساتذہ ٹارگٹ کلنگ کے خوف کے باعث دوسرے صوبوں کو منتقل ہوگئے ہیں۔ پروفیسر ناظمہ طالب کے قتل کے بعد ستر سے زائد اساتذہ نے مادر علمی کو چھوڑنے کی خاطر این او سی کے لئے درخواستیں جمع کروادی ہیں اس تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے کیونکہ یونیورسٹی کے پانچ سو کے قریب اساتذہ میں سے نصف کا تعلق بلوچستان سے نہیں ہے اور ان اساتذہ کو مسلسل سنگین نوعیت کی دھمکیاں مل رہی ہیں۔بلوچستان یونیورسٹی بہترین دن بدن بہترین دماغوں سے محروم ہوتی جارہی ہے ۔جن ستر اساتذہ نے ملک کی دیگر جامعات میں تبادلے کے لئے این او سی کے حصول کے لئے درخواستیں جمع کرائی ہیں ان میں خواتین بھی شامل ہیں اور ان میں زیاد تعداد پی ایچ ڈی اساتذہ کی ہے ۔ اس بات کی تصدیق جامعہ بلوچستان کے قائم مقام وائس چانسلر ڈاکٹر غلام رسول رئیسانی نے کردی ہے ۔چنانچہ لازمی بات ہے کہ اگر اساتذہ کو این او اسی نہیں بھی ملی تو وہ عدم تحفظ کے خوف سے یونیورسٹی نہیں جائیں گے ۔چونکہ یونیورسٹی سریاب روڈ پر واقع ہے اور یہ علاقہ اردو ، پنجابی اور ہزارہ قبیلے کے افراد کے لئے ممنوعہ علاقہ ہے اور بہت حساس بھی ہے ۔

بلوچ شدت پسند تنظیم بی ایل اے نے پروفیسر ناظمہ طالب کے قتل کی ذمہ داری اس حجت و دلیل کے ساتھ قبول کی ہے کہ پچیس اپریل کو سریاب کے علاقے میں پولیس اور انٹی ٹیررسٹ فورس کے سرچ آپریشن کے دوران ایک خاتون پر تشدد کیا گیا جس کے باعث وہ دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئیں چنانچہ اگر یہی دلیل ہے تو کوئٹہ شہر میں راکٹ داغنے کے واقعات میں جو بے گناہ لوگ اور بچے مختلف اوقات میں جاں بحق ہوچکے ہیں ان کے قتل کا حساب اور بدلہ کس سے لیا جائے ؟ حقیقت یہ ہے کہ راکٹ داغنے اور بم دھماکوں میں لا تعلق اور بے گناہ شہری ہی مرے ہیں ۔ دوسرا یہ کہ خاتون کی مبینہ ہلاکت کا کیس بھی تو مشکوک ہے اگر واقعی ان پر تشدد ہوا تھا تو کیوں خاتون کا پوسٹ مارٹم نہیں کرایا گیا حالانکہ سی سی پی او کوئٹہ غلام شبیر شیخ نے بھی احتجاج کرنے والوں سے خاتون کے پوسٹ مارٹم کا کہا اور واقعہ کی تحقیقات کے لئے تعاون کا یقین دلایا ۔ خاتون کی میت کو قبرستان لے جاتے ہوئے بلوچستان نیشنل پارٹی کے کارکن اور مسٹر حبیب جالب ایڈووکیٹ اچانک پریس کلب لے آئے جس کے بعد بی ایس او آزاد کے کارکن بھی پہنچ گئے چنانچہ اس موقع پر بی ایس او آزاد نے بی این پی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ۔ یہ کہا گیا کہ خاتون ان کے کارکن کی والدہ ہے لہٰذا احتجاج کرنا ان کا حق ہے گویا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ احتجاج ضرور کیا جاتا لیکن اس کے ساتھ ساتھ ضروری تھا کہ میڈیکل کارروائی کی جاتی تاکہ اس ضمن میں شک و شبے کے گنجائش نہ رہتی اور پوسٹ مارٹم اب بھی ہوسکتا ہے ۔

بلوچستان کی صورتحال اور حالات کی خرابی کی ذمہ دار سیاسی جماعتیں بھی ہیں جنہوں نے آج تک حقائق تک پہنچنے کی کوشش سرے سے کی ہی نہیں اوراندھی تقلید کی سیاست کررہی ہیں ۔ایک طرف سیاسی جماعتیں پولیس اور حکومت سے بم دھماکوں ، ٹارگٹ کلنگ حتیٰ کہ اغواءبرائے تاوان کی وارداتوں میں ملوث عناصر کے خلاف کارروائی کا شدید الفاظ میں مطالبہ کرتی رہتی ہیں لیکن جب اس ضمن میں انتظامیہ کی جانب سے کوئی کارروائی عمل میںلائی جاتی تو سب سے پہلے یہی جماعتیں نکتہ چینی شروع کردیتی ہیں یعنی صورتحال کو عوام کے سامنے مشکوک بنادیتی ہے۔ پروفیسر ناظمہ طالب کے قتل کے بعد جب مشتبہ افراد کو حراست میں لیا گیا تو بی این پی (عوامی) کے سربراہ وفاقی وزیر میر اسرار اللہ زیری نے بیان داغ دیا کہ بے گناہ افراد کو گرفتار کیا گیا ہے ۔ اسرار اللہ زہری جب اتنا جانتا ہے کہ بے گناہ پکڑے گئے تو یقیناً انہیں گناہ گاروں کا بھی پتہ ہوگا بہتر ہوگا کہ وہ ملزمان کی نشاندہی بھی کریں تاکہ پولیس ان پر ہاتھ ڈالے ۔اس کے ساتھ دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ بھی ملزمان کی نشاندہی کریں ۔نیشنل پارٹی کہتی ہے کہ تمام برائیوں کی جڑ افغان مہاجرین ہیں ، ٹھیک ہے افغان مہاجرین کی آمد سے بہت سارے مسائل نے جنم لیا ہے ، چوری، ڈکیتیوں میں اضافہ ہوا ہوگا مگر عرض یہ ہے کہ افغان مہاجرین ٹارگٹ کلنگ،راکٹ راغنے ، دستی اور ریموٹ کنٹرول بم دھماکوں میں ملوث نہیں ہیں ۔اوریہ حقیقت نیشنل پارٹی سے بھی مخفی نہیں لہٰذا ضرورت اس امر کی ہے کہ عوام کو بیوقوف بنانے کے حربے استعمال کرنا چھوڑ دیئے جائیں اگر ہمت ہے تو صاف صاف ان تنظیموں کو تنقید کا نشانہ بنائے جو ان واقعات کی ذمہ داری قبول کرتی ہیں یہ حقیقت یقینا نیشنل پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) سمیت تمام جماعتوں پر عیاں ہیں ۔ تخریبی واقعات روز رونما ہورہے ہیں جس کی وجہ سے صوبے کو جہاں دیگر شعبوں میں شدید نقصان پہنچا رہا ہے وہاں زراعت بھی تباہی کے دہانے پر پہنچ چکا ہے کیونکہ آئے روز تخریب کاری کے واقعات میں بجلی کے ٹاورز اڑا دیئے جاتے ہیں جس کے باعث کئی کئی مہینوں تک عوام کے ساتھ ساتھ زمینداروں کو اضافی لوڈ شیڈنگ کا بوجھ برداشت کرنا پڑتا ہے ، متعدد بار یوں بھی ہوا ہے کہ جب مین ٹرانسمیشن لائنوں کو اڑا دیا جاتا ہے تو صوبے کے تیس میں سے بیس تاریکی اضلاع میں ڈوب جاتے ہیں ۔ تخریب کاری کے ان واقعات کے باعث کیسکو کو اب تک بیس کروڑ روپے کے قریب نقصان ہوچکا ہے جبکہ زمینداروں کے کروڑوں روپے کے نقصانات اس کے علاوہ ہیں۔

بہر کیف حکومت پہ لازم ہے کہ وہ ایسے حالات پیدا کریں جس کے باعث بے کس و بے گناہ افراد کی ہلاکت کے واقعات تھم جائیں اور یہ بھی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ اساتذہ کو تحفظ فراہم کرے تاکہ تعلیمی ادارے ویران ہونے سے بچ جائیں ۔

Sunday, May 2, 2010

بلوچستان میں انتشار اور عدم استحکام کا کھیل