Monday, November 9, 2009

بلوچستان کے بگڑتے حالات اور حکومتی عدم توجہی

ملک جن حالات سے آج کل دو چار ہے اس سے وطن کا کوئی بھی باسی بے خبر نہیں ۔افواج پاکستان مالا کنڈ ڈویژن کے بعد اب جنوبی وزیرستان میں آپریشن راہ نجات میں مصروف ہے ۔ رب ہی بہتر جانتا ہے کہ آیا راہ نجات آپریشن سے فی الواقعی دہشت گردی اور غریب کاری سے نجات حاصل ہوسکے گی ؟ بہر حال ایک آزمائش اور امتحان ہے جس میں من حیث القوم ہمیں مبتلا کردیاگیا ہے ۔سوال یہ ہے کہ کیا آپریشن راہ نجات کے بعد امریکہ پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن ہوگا ؟ سردست لگتا ایسا نہیں ہے ۔امریکہ افغانستان میں پاﺅں جمانے کی خاطر پاکستان کو انتشار ، بدامنی اور لاقانونیت کے دلدل میں دھنساتا جارہا ہے شاید اس ضمن میں انہیں کافی حد تک کامیابی بھی حاصل ہوئی ہے ۔ ساتھ بلیک واٹر اور امریکی مداخلت بھی ایک سنگین اور قابل توجہ مسئلہ ہے لہٰذا راہ نجات کی ضرورت اس تناظر میں بھی محسوس کرنی ہوگی ۔اس پورے کھیل میں بلوچستان کو بھی غیر معمولی حیثیت حاصل ہے تاہم اس جانب تساہل کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے صوبے کی حساس اور تشویشناک صورتحال سے چشم پوشی اور پہلو تہی کے مزید خطرناک نتائج برآمد ہوں گے ۔وزیراعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی فرماتے ہیں کہ ملک کے دیگر حصوں سے بلوچستان کی صورتحال بہتر ہے یہ طفل تسلی ہے جو خود کو دی جارہی ہے ۔بلوچستان کو نسبت دینے کی ضرورت نہیں ہے یہ صوبہ بجائے خود آتش فشاں پر ہے جس کی چنگاریاں بھڑک رہی ہیں کسی غفلت اور خوش فہمی کے نتیجے میں اس آتش فشاں کے شعلے پھر شاید کسی کے قابو میں نہیں آئیں گے ۔بلوچستان میں علیحدگی کی سوچ کو تقویت د ی جارہی ہے نیز صوبے کو لسانیت کی بنیاد پر تصادم کی راہ پر لگانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام بلوچستان کے امیر سینیٹر مولانا محمد خان شیرانی نے اس جانب توجہ د لائی ہے ان کا کہنا ہے کہ ” کیری لوگر بل میں انسداد خانہ جنگی کے لئے بھی فنڈ مختص کیا گیا ہے جبکہ پاکستان میں اس وقت کوئی خانہ جنگی نہیں لہٰذا بل کے اس شق سے ظاہر ہوتاہے کہ امریکہ پاکستان میں خانہ جنگی کی صورتحال پیدا کرنا چاہتا ہے اور قبائلی لشکروں کی شکیل اس سلسلے کی کڑی ہے ،دشمن بلوچستان میں پاﺅ جمانے کی کوشش کررہا ہے “۔

یقینا بلوچستان کی صورتحال کو نازک ہے امریکہ کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف علاقوں میں اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے کارروائی کی نیت رکھتا ہے جس کی معاونت یہاں کی قوم پرست جماعتیں کررہی ہیں حالانکہ بلوچستان میں کوئی مذہبی انتہاءپسندی ا ور دہشت گردی کے مراکز موجود نہیں ہیں ،نا ہی اس نوعیت کی کوئی سرگرمی دکھائی دیتی ہے ۔البتہ انتہاءپسندی اگر ہے تو وہ لسانی اور قومی بنیادوں پر پائی جاتی ہے ، قومی حقوق کے نام پر متشدد جدوجہد ہورہی ہے اور اس دوران پولیس اور سیکورٹی فورسز کے علاوہ آباد کاروں کوقتل کیا جارہا ہے ۔ بلوچستان کے وزیر تعلیم شفیق احمد خان اسی مسلح جدوجہد کی بھینٹ چڑھ گئے اور مزید بھی بہت کچھ ہونے والا ہے ۔ اس حوالے سے حکومت یہ بتارہی ہے کہ بلوچستان کے حالات میں بھارت ملوث ہے وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک فرماتے ہیں کہ ان واقعات میں ملوث لوگ رقم لیکر یہ کام کرتے ہیں۔ بہر حال اب تک بہت سارا نقصان ہوچکا ہے ، پنجاب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بطور خاص ہدف بناکر مارا جاتا ہے تعلیمی اداروں کے ملازمین اور اساتذہ قتل ہوچکے ہیں ۔ 5نومبر کو جامعہ بلوچستان کے بعد لائبریری سائنس کے چیئرمین پروفیسر خورشید انصاری کو اپنی رہائشگاہ کے قریب قتل کیا گیا پروفیسر خورشید انصاری عشاءکی نماز کی ادائیگی کے لئے گھر سے نکلے چند ہی قدم کے فاصلے پر موٹر سائیکل سواروں نے ان پر گولیاں برسائیں انہیں پانچ گولیاں لگیں جس کے نتیجے میں وہ موقع پر ہی خالق حقیقی سے جاملے۔ خورشید انصاری 1985ءسے بلوچستان یونیورسٹی میں تدریسی خدمات سرانجام دے رہے تھے ، ان کا آبائی تعلق لاہور سے تھا تاہم انہیں کوئٹہ میں سپردخاک کردیا گیا ۔ یونیورسٹی کی انتظامیہ کی جانب سے تین یوم سوگ اور تدریسی عمل معطل کیا گیا قتل کے اس واقعہ کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے قبول کرلی۔ گزشتہ سال اپریل میں بلوچستان یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر ڈاکٹر صفدر کیانی کو بھی نامعلوم افراد نے گھر کے سامنے فائرنگ کرکے قتل کردیا تھا ۔اسی طرح رواں سال (24جولائی کو )کوئٹہ کے سریاب روڈ پر گورنمنٹ ڈگری کالج میںکمیسٹری کے پروفیسر پروفیسر غلام سرور کو گھر کی چوکھٹ پر فائرنگ کر کے قتل کیا گیا ۔23جولائی کو سریاب روڈ پر واقع سریاب مل میں گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کے وائس پرنسپل حاجی محسن انصاری صبح ا سکول کے گیٹ کے سامنے نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہو ا۔یاد ش بخیر !محسن انصاری پروفیسر خورشید انصاری کے رشتہ دار تھے ۔مزیدبرآںکامرس کالج کوئٹہ کے پرنسپل پروفیسر امانت علی کو 23جون2009ءکی صبح کالج کے مرکزی دروازے پر گاڑی سے اترتے ہوئے طلباءکے سامنے نامعلوم افراد نے گولیوں کا نشانہ بنایا اسی طرح مستونگ اور خضدار میں بھی سکول اور کالج کے اساتذہ کو قتل کیا گیا ہے جبکہ زندگی کے دیگر شعبوںسے تعلق رکھنے والے دیگر کئی افراد بھی نادیدہ افراد کی گولیوں کا نشانہ بن چکے ہیں ان واقعات میںجاں بحق ہونےوالے افراد کے اعداد و شمار اگر سینکڑوں میں بیان کئے جائیں تو مبالغہ نہ ہوگااور یہ کوئی پوشیدہ امر نہیں ہے بلکہ بلوچ مسلح تنظیمیںمختلف مواقع پر ان وارداتوں کی ذمہ داری قبول کرتی رہی ہیں جو ان واقعات کواپنے مقصد کی تکمیل کا ذریعہ بیان کرتے اور سمجھتے ہیں اور یہ ارادہ ظاہر کرتے ہیں کہ آئندہ بھی اس نوع کے مقاصد کے حصول کے لئے سر گرم رہیں گے ۔حد تو یہ ہے کہ کوئٹہ میں لڑکیوں کے سکول پر بھی دستی بم حملہ کیا گیا اس واقعہ میں سکول کی تین استانیاں زخمی ہوگئیں ۔یہ کوئٹہ اور شاید صوبے میںاپنی نوعیت کا پہلا واقعہ ہے عام طور پر یہ توقع طالبان یا دانست میں مذہبی انتہاءپسندوں سے کی جاتی ہے لیکن معروضی تجزیہ یہ بتاتا ہے کہ کوئٹہ یا صوبے کے کسی دوسرے علاقے میں مذہبی عناصر کی جانب سے اس نوعیت کا کوئی واقعہ نہ وقوع پذیر ہوا ہے اور نہ ہی کوئی امکان پایا جاتا ہے ۔ اگرچہ منو جان روڈ پر واقعہ ہدہ گرلز ہائی سکول پر دستی بم حملے کی ذمہ داری کسی تنظیم نے قبول نہیں کی لیکن عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ کارروائی صوبے کی کسی مسلح تنظیم کی جانب سے کی گئی ہے ممکن ہے کہ یہ عام تاثر درست نہ ہو ۔اسی روز (7نومبر2009ئ) شہر کے وسط میں واقع میزان چوک پر ایف سی چیک پوسٹ کے قریب بم حملے میں چودہ افراد زخمی ہوگئے جن میں ایک سیکورٹی اہلکار اورتین بچے بھی شامل تھے ۔زخمی ہونے تمام کے تمام مزدور کار اور غریب لوگ تھے جو اس چوک پر تھڑو ں پر یا ریڑھیاں لگا کر معاش کے حصول کے لئے موجود تھے ۔ ان واقعات میں آباد کاروں کو نشانہ بنایا جاتا ہے لیکن ظاہرہے کہ فائرنگ اور بم حملوں میں آباد کار کے علاوہ دوسرے لوگ بھی ہلاک یا زخمی ہوتے رہتے ہیں اور اس طرح کے کئی واقعات رونما ہوچکے ہیں۔ ایک اور پہلو جو بیان کرنا ضروری ہے وہ یہ کہ مسلح تنظیمیں آباد کاروں کوبلا تمیز عہدہ و مرتبہ نشانہ بناتے ہیں یعنی ان واقعات میں حجام، خاکروب اور محنت و مزدوری کرنے والے افراد کو بھی بخشا نہیں جاتا۔گزشتہ دنوں (30اکتوبر) کیڈٹ کالج مستونگ کے درجہ چہارم کے ملازمین یونس اور منور کو کلاشنکوف سے فائرنگ کرکے قتل کردیا گیا ۔31اکتوبر کوبلوچستان بورڈ آف انٹرمیڈیٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے سیکرٹری حامد محمود کوقاتلانہ حملے میں شدید زخمی کردیا گیا جو اس وقت بھی زیر علاج ہے ۔ اس واقعہ کی ذمہ داری بلوچ لبریشن یونائیٹڈ فرنٹ نے قبول کرلی ۔

گویا کشت و خون کا بازار گرم ہے جبکہ وزیراعلیٰ کہتے ہیں کہ دیگر صوبوں کی نسبت یہاں حالات بہتر ہے اب اندازہ لگایا جائے کہ یہ نسبت ملک کے دیگر کس علاقے سے میل رکھتا ہے ؟ اور کالعدم مذہبی تنظیموں کی کارروائیاں اس کے علاوہ ہیں جس کی وجہ سے بھی بڑا نقصان اب تک واقع ہوچکا ہے ظاہر ہے کالعدم مذہبی تنظیموں کا نیٹ ورک ہنوز فعال ہے اور ان کی کارروائیاں آئندہ بھی ممکن ہیں۔ وفاقی اور صوبائی حکومت دونوں کی جانب سے بھارتی مداخلت کا دعویٰ کیا جاتا ہے لیکن اس دعوے کو سفارتی سطح پر بظاہر ثابت نہیں کیا جاسکا ہے ۔ نامعلوم کہ حکومت اس ضمن میں کس مصلحت کا شکار ہے جبکہ بھارت کے خیر خواہ تو بہت سارے ہیں امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے پاکستان کے حالیہ دورے کے بعد بھارت کی وکالت اور دلالت کی ہے کہ امریکہ کو بلوچستان میں بھارتی مداخلت کے ثبوت پیش نہیں کئے گئے ہیں ۔ عالم یہ ہے کہ حکومت کا پیکج اور زخموں پر مرہم رکھنے کی نوبت تاحال نہیں آئی جبکہ زخم سڑ رہے ہیں ،دوریاں بڑھ رہی ہیں حکومت کو اگر این آر او ، چینی کے بحران اور دیگر معاملات سے فرصت ملے تو وہ ملک کی سالمیت اور استحکام پر توجہ دے ۔ حد یہ ہے کہ بلوچستان میں عدم تحفظ کی کیفیت میں لوگ شب و روز بسر کررہے ہیں ،کوئٹہ شہر کا کاروبار تباہ ہورہا ہے ،معاملات زندگی متاثر ہے ۔یہ حالات فوری پیش رفت اور توجہ کے مستحق ہے لیکن اس کی نزاکت پر توجہ نہیں دی جارہی ہے پیکج اگر بلوچستان کے مسئلے کا حل ہے تو اسے جلد سے جلد بروئے کار لایا جائے تاکہ صوبے میں امن اور قرار کی فضاءقائم ہو
۔حکومت اگر سنجیدگی کا مظاہرہ کرے تو بلوچستان میں علیحدگی کی بجائے وحدت کی سوچ پیدا ہوگی اور یہ نا ممکن بھی نہیں ہے بس ضرورت اخلاص اور نیک ارادوں کی ہے جس کی اب تک کمی محسوس کی جارہی ہے ۔