Sunday, March 28, 2010

کوئٹہ مذہبی یا لسانی انتہاء پسندی کا شکار؟

بلوچستان غیروں کی سازش کے باعث جل رہا ہے اس الاؤ میں بتدریج اضافہ اپنوں کی چشم پوشی ، مصلحت کوشی اور مفادات کے باعث ہورہا ہے، یہ اپنے اسلام آباد کے وہ طبقات ہیں جو اقتدار کے مراکز پر براجمان ہیں جن کے نزدیک پاکستان ان کے ارد گرد کا خطہ زمین ہی ہے اور کثرت آباد ی کی زعم میں مبتلا ہوکر ملک کی سلامتی کو دانستہ طور پر داؤ پر لگائے بیٹھے ہیں ۔جس کا نتیجہ صوبوں اور اقوام کے درمیان نفرت اور عداوت تخم ریزی کا برآمد ہوا ہے ،یہ وہ زہر ہلاہل ہے جس نے ملک کی حیات کو موت کے دہانے پر لا کھڑا کردیا ہے اس زہر کا تریاق جمہور و قانون کی حکمرانی اور آئین و دستور پر اس کی اصل روح کے مطابق عملدرآمد ہے وگرنہ فاصلوں میں اضافہ ہوتا رہے گا ، دوریاں بڑھتی جائیں گی چنانچہ اغیار کو کھل کھیلنے کا مزید موقع فراہم ہوگا ۔ پاکستان میں انتشار کا کھلواڑ کھیلا جارہا ہے ان آتشی حالات کا نظارہ سرحد و بلوچستان میں دیکھا جاسکتا ہے اگر نگاہ با بصیرت ہو ؟ دشمن بلوچستان کی خون آشامی میں اپنا پورا پورا حصہ ڈال رہا ہے ، لاقانونیت اس وقت اپنے عروج پر ہے جس کی زد میں معصوم شہری چلے آرہے ہیں، سیکورٹی فورسز کے اہلکار مارے جارہے ہیں ، کمال ہے کہ حکمران طبقہ ڈیٹ بن کر محض تماشا دیکھ رہا ہے اصلاح احوال کے لئے درست راستے کا تعین نہیں کرپارہے ۔ غیر تو پاکستان کو غیر مستحکم ہی دیکھنا چاہتے ہیں ،بلوچستان کا یہ انتشار کوئی معمولی حکمت عملی کا شاخسانہ نہیں ہے بلکہ اس کی پشت پر دنیا کی بڑی بڑی قوتیں موجود ہیں جنہیں فقط اپنے ہی مفادات عزیز ہیں،ان قوتوں کا مطمع نظر دراصل بلوچستان کا ساحل اور زیر زمین وسائل ہیں شاید کہ ہمارے چند ناداں دوست کسی خوش فہمی میں مبتلا ہوکر استعمال ہورہے ہیں ۔اگر یہ آزادی کی جنگ ہے تو یاد رہے کہ یہ جنگ خاکم بدہن پاکستان ٹوٹنے کے بعد بھی جاری رہے گی اور محرومیوں کا یہ ماتم رُکے گا نہیں ۔
واضح دکھائی دے رہا ہے کہ بلوچستان لسانی ٹکراؤ کی طرف بھی بڑھ رہا ہے ۔مزید برآں بعض قوم پرست جماعتیں غیر کے کہنے پر چاہتی ہیں کہ کوئٹہ تخت و تاراج ہو ۔ طالبانائزیشن کے پھیلاؤ کا ”ہوا“ کھڑا کیا جارہا ہے، کوئٹہ اور شمالی بلوچستان میں طالبان کی موجودگی کے اشارے حکومت پاکستان کی بجائے افغانستان میں امریکہ کی سرخیلی میں موجود عالمی جارح قوتوں کو دیئے جاتے ہیں تاکہ حکومت پاکستان کو کوئٹہ میں آتش و آہنگ کا بازار گرم کرنے پر مجبور کیا جاسکے اورڈرون کی بلا بھی شہر کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں بے گناہوں پر چھوڑی جائے۔یہ حضرات اپنے طور پر نشاندہی کرچکے ہیں کہ کوئٹہ کے فلاں فلاں علاقے طالبان کا گڑھ ہیں۔ پشتونخوا ملی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی(مینگل) ، نیشنل پارٹی کے علاوہ جملہ بلوچ قوم پرست جماعتیں بطور خاص کوئٹہ میں طالبان کی موجودگی کی بانسریاں بجاتی ہیں ۔ خیر سے محمود خان اچکزئی کی جماعت کی آواز کچھ مدھم ہوگئی ہے وجہ معلوم نہیں کہ یہ اچانک یو ٹرن کیوں لے لیا گیا ؟ البتہ مذکورہ بالا دیگر جماعتیں ہنوز طالبان کی موجودگی کا ڈول پیٹ رہی ہے اور تو اور تبلیغی جماعت سے بھی شاکی و خوفزدہ ہیں ۔ ان کے صاحبان عقل و دانش کے بقول منصوبہ بندی کے تحت بلوچ سیکولر معاشرے کو انتہاء پسندی کی راہ پر لے جایا جارہا ہے حالانکہ بلوچ انتہاء پسندی تو اب روز روشن کی طرح عیاں ہے پھر تبلیغی جماعت والے تو پاکستان بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں تو کیا یہ سب آئی ایس آئی کی پالیسی کے تحت ہورہا ہے ؟ ۔
بات ہورہی تھی طالبان کی موجودگی اور نقل و حمل کی تو اس ضمن میں سیاسی سطح کے علاوہ اخبارات کے اداریوں ، مضامین اور خطوط کے ذریعے بھی افغانستان پر قابض قوتوں کو باور کرایا جاتا ہے کہ طالبان کوئٹہ کے ان ان علاقوں میں موجود ہیں۔ اس تناظر میں معاصر انگریزی اخبار”ڈیلی ڈان“ میں ایم پوپلزئی ار شریف کاسی نامی افراد نے بیس مارچ دو ہزار دس ایڈیٹر کے نام خط میں کوئٹہ میں طالبانائزیشن کے حوالے سے اپنی تشویش کا اظہار کیا ہے یہ نام فرضی لگتے ہیں یا پھر ہم خیال ہوں گے ۔یہ تحریر اسی منصوبہ بندی کا حصہ ہے جس کا سطور بالا میں ذکر ہوا ہے کیونکہ نیتوں کے فطور عیاں ہوہی جاتے ہیں۔بہر کیف فتنہ پرور خیر خواہوں کا ڈان کے ایڈیٹر کے نام خط کا لب لباب یہ ہے کہ کوئٹہ میں ٹارگٹ کلنگ اور اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کا تعلق طالبان سے ہے اور طالبان پشتونوں ، بلوچوں اور ہزارہ اقوام کے فطری دشمن ہیں۔ خط میں مسلح کارروائیوں کے حوالے سے ضمنی طور پر ذکر بلوچ قوم پرستوں کا بھی کیا گیا ہے مگر مراد اس تحریر کی یہ ہے کہ طالبان کی موجودگی کو یقینی بناکر بڑی قوتوں کو حملے کا جواز فراہم کیا جائے۔
مزید مبالغہ آرائی ملاحظہ ہو ، تحریر میں کہا گیا ہے کہ 2001ء کو افغانستان پر امریکی حملے کے بعد پاکستان آنے والے طالبان نے بہت ساری زمینیں قبضہ کرلیں اور یہاں نو گو ایریاز قائم ہوگئیں یہ علاقے افغانستان پر حملوں کے لئے بیس کیمپ کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ یہ بھی بتایاگیا ہے کہ حافظ مجید کوئٹہ شوریٰ کے لیڈر ہیں جن علاقوں کو نو گو ایریاز قرار دیا گیا ہے ان میں کوئٹہ شہر کا علاقہ پشتون آباد، کاکڑ کالونی، اسی طرح مشرقی و مغربی بائی پاس شامل ہیں ساتھ ان علاقوں کی نشاندہی اس طرح بھی کی گئی ہے کہ ان علاقوں کو طالبان اپنی سرگرمیوں کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ مزید یہ کہا گیا ہے کہ ہلمند آپریشن کے بعد بھی طالبان کوئٹہ آئے اور سرکاری و غیر سرکاری زمینوں پر قبضہ کرلیا۔ آخر میں حکومت پاکستان کو مخلصانہ تجویز دیتے ہوئے یہ تحریر کیا گیا ہے کہ مشرقی بائی پاس کے مقبوضہ زمینوں کو خالی کراکر تعلیمی اور صنعتی زون قرار دے کر تری دی جائے ۔ “ ڈان کی اس تحریر کو بنیاد بناکر کوئٹہ کے ایک مقامی روزنامہ ”آزادی“ نے بھی اپنے اداریے (23مارچ2010ء )میں تشویش کا اظہار کردیا بلکہ تشویش کچھ زیادہ ہی نمایاں تھی کہ یہ آباد کاری بلوچوں کو اقلیت میں تبدیل کرنے کے لئے کی جارہی ہے ۔ بہر حال ہمیں اس سے کوئی غرض نہیں کہ کون اقلیت میں ہے اور کون اکثریت البتہ غرض طالبان کی موجودگی اور نو گو ایریاز کے حوالے سے لوگوں کی بے چینی کا ضرور ہے، اولاً عرض یہ ہے کہ مشرقی بائی پاس گنجان آباد علاقہ ہے جہاں بلوچ اور پشتون دونوں اقوام آباد ہیں یہاں زمینوں کا تنازعہ قبائل کے درمیان ہوا تھا جو کہ اب حل ہوگیا ہے مشرقی بائی پاس میں پشتونوں کے مقامی قبائل مندوخیل، بڑیچ، اچکزئی، خلجی ، کاکڑ،نورزئی اور علیزئی آباد ہیں اسی مشرقی بائی پاس پر علامہ اقبال اوپن یونیورسٹی موجود ہے اسی کیساتھ تعمیر نو ایجوکیشنل کمپلیکس بھی موجود ہے جو ہر طرح سہولیات سے آراستہ ارادہ ہے جس کے پرنسپل ممتاز ماہر تعلیم پروفیسر فضل بار ی کو22مارچ کو مشرقی بائی پاس پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کرکے قتل کردیا اور ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کرلی۔ اس واقعہ کے بعد مذکورہ تعلیمی ادارے کے اساتذہ نے عدم تحفظ کے باعث مزید پڑھانے سے انکار کردیانتیجہ یہ نکلاکہ تعمیر نو ٹرسٹ بلوچستان نے مشرقی بائی پاس پر موجود ایک عظیم ادارے کو بند کردیا ،اس ادارے میں ایک ہزار سے زائد طلباء زیر تعلیم تھے اور سینکڑوں طلباء ادارے کے ہاسٹل میں رہ رہے تھے ۔ اس ادارے کو آئندہ سالوں میں یونیورسٹی کا درجہ دیا جارہا تھا اور اسے ایجوکیشنل سٹی میں تبدیل کئے جانے کی منصوبہ بندی مکمل کرلی گئی تھی اس ادارے کے قیام سے علاقے میں تعلیم کے فروغ کے حوالے سے مثبت تبدیلی کے آثار نمایاں ہوگئے تھے ۔ تعمیرنو ٹرسٹ کے زیر انتظام تعلیمی اداروں کا معیار کا یہ عالم ہے کہ لوگ اپنے بچوں کو ان اداروں میں داخل کرانے کے لئے کیا کیا پاپڑ نہیں بیلتے اور لائق و خوش نصیب طلباء کو داخلے ملتے ۔اب ذرا بتایا جائے کہ مشرقی بائی پاس کو تعلیمی اور صنعتی زون بنانے کا مطالبہ کرنے والے اس ادارے کی بندش کے ذمہ دار ہیں یا طالبان ؟، جو سرے سے موجود ہی نہیں ۔ یاد رہے کہ علاقے کے لوگ کاروبار پیشہ اور محنت مزدوری کرنے والے ہیں۔ اسی طرح پشتون آباد، خروٹ آباد اور کاکڑ کالونی وہ علاقے ہیں جہاں ایف سی کی کوئی چوکی قائم ہے نہ ہی پولیس کی ،بطور خاص پشتو ن آ ٓباد اور کاکڑ کالونی کوئٹہ کے پرامن علاقے ہیں ۔ کوئٹہ میں زمینیں بے وارث نہیں پڑیں جسے کوئی بھی آکر قبضہ کرے بلکہ یہاں کی زمینیں قبائل کی ملکیت ہے ۔ پشتون آباد، خروٹ آباد اور کاکڑ کالونی کے علاقوں میں قانون کی مکمل عملداری قائم ہے اور لوگ قانون کا احترم کرنا بھی جانتے ہیں ۔ واضح ہو کہ شہر میں ٹارگٹ کلنگ کے واقعات کے بعد اردو اور پنجابی بولنے والے مزدور اور ملازمت پیشہ افراد کاکڑ کالونی اور پشتون آباد میں بھی رہائش اختیار کررہے ہیں وہ اس لئے کہ یہ علاقے پرامن ہیں۔
رہی بات کہ طالبان کے بیس قائم ہیں یہ عقل سے ماورا ء الزام ہے جس پر کسی دلیل کی ضرورت وقت کا ضیاع ہوگا۔ تاہم کوئٹہ شہر میں نو گو ایریاز ضرور موجود ہیں ،وہ سریاب اور چند دوسرے علاقے ہیں جہاں بلوچ مزاحمت کاروں(ٹارگٹ کلرز) کی خوف سے رات کے اوقات میں کیا دن کو بھی اردو اور پنجابی بولنے و الوں کے علاوہ ہزارہ برادری کے افراد جانے سے کترانا تو دور کی بات سرے سے جاتے ہی نہیں ۔ ہم توکوئٹہ میں طالبان کی موجودگی تسلیم نہیں کرتے لیکن نام نہاد متعصب دانشوروں نے ٹارگٹ کلنگ کا الزام بھی طالبان پر عائد کردیا۔ الزام غلط بے جا ہی نہیں بلکہ سفید جھوٹ ہے ۔ کوئٹہ شہر میں فرقہ وارانہ وارداتیں تسلسل کے ساتھ ہورہی ہیں ان میں کالعدم تنظیم لشکر جھنگوی ملوث ہے جس سے منسلک افراد کوئٹہ اور بلوچستان کے مغربی علاقوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ باقی سیکورٹی فورسز اور اردو و پنجابی بولنے والے اساتذہ، مزدوروں اور سرکاری ملازمین کو قتل کی ذمہ داری کوئی نہ کوئی بلوچ مسلح تنظیم قبول کرتی رہتی ہے ۔
بلوچستان کے پشتون علاقوں کی بڑی پارلیمانی جماعت جمعیت علمائے اسلام ہے جن کے ہر دور حکومت میں بطور خاص پشتون علاقوں میں تعلیمی ادارے تعمیر کئے گئے ہیں آج تک کسی کالج یا اسکول پر کسی نے پتھر تک نہیں پھینکا، نوجوان نسل زیور تعلیم سے آراستہ ہورہی ہے مگر افسوس کہ طلباء و اساتذہ کی ٹارگٹ کلنگ کے باعث کیڈٹ کالج مستونگ ، خضدار انجینئرنگ یونیورسٹی، خضدار ریذیڈنشل کالج کے علاوہ دیگر تعلیمی ادارے تباہی کے دہانے پر پہنچ گئے ۔ ایک بے سرو پا الزام جہادی تنظیموں اور طالبان پر کوئٹہ شہر میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں کا بھی لگایاگیا ہے چنانچہ اس پر اتنا ہی کہا جاسکتا ہے یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ کوئٹہ شہر میں اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں کون لوگ اور گروہ ملوث ہیں اور کن پہاڑی سلسلوں میں تاوان کی ادائیگی تک رکھا جاتا ہے ،اُن لوگوں سے جو تاوان ادا کرنے کے بعد گھروں کو لوٹ آئے ہیں ،پوچھا جائے کہ اغواء کاروں کون تھے؟۔ڈی آئی جی آپریشن حامد شکیل بھی کہہ چکے ہیں کہ اغواء برائے تاوان کی وارداتوں میں اکیس گروہ ملوث ہے جن میں سے انیس گروہ کے متعدد ارکان کو گرفتار کیا جاچکا ہے اور یہ تمام مقامی افراد ہیں۔ ان حضرات کا مقصد اپنے آقا امریکہ کو کوئٹہ میں انتشار پھیلانے کے لئے جواز فراہم کرنا ہے تاکہ ان کے فتنہ ذہنی اور تعصب کو سکون میسر ہو۔
مذکورہ اخبار نے کسی کند نا تراش کے بے میل و سر و پا الزامات پر معاً ادارایہ تحریر کیا ،شہر میں خرابی و قتل عام کا الزام طالبان کے سر تھوپ دیا ۔اسی اخبار کے کسی ادارے اور خصوصی رپورٹ میں ہم نے کسی بے کس پنجابی اور اردو بولنے والے معلم ، مزدور اور ملازم کی ٹارگٹ کلنگ کی مذمت کے الفاظ نہیں پڑھے۔ اس گلشن کو اسلام آباد کے مقتدر طبقات کے علاوہ اپنے بھی تباہ و ویران کرنے پر تلے ہوئے ہیں ،الزام لگایا جاتا ہے کہ بلوچستان میں آرمی مبینہ طور پر آپریشن کرکے بلوچوں کا قتل عام کررہی ہے مگر افسوس کہ یہی قوتیں امریکہ کو کوئٹہ اور شمالی بلوچستان پر ڈرون حملوں کی ترغیب بھی دے رہی ہیں ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ طالبان اپنے ملک افغانستان میں قابض قوتوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑرہے ہیں وہ کوئی لینڈ مافیا نہیں کہ کوئٹہ میں آئے اور کسی کی زمینوں پر قبضہ کرے اور تحصیل ، تھانہ و کچہریوں کے چکر لگائے اور پٹواریوں کو جیب خرچہ دے کر خوش کرتا پھرے ۔