Sunday, February 7, 2010

پاکستان افغانستان ،دو قالب یک جان ؟

تحریر: اخوندزادہ جلال نورزئی
پاکستان اور افغانستان کے لئے نعرہ لگایا جاتا تھا کہ دونوں ممالک دو قالب یک جان ہے ۔1992ء میں سرخ افواج (روسی) جب شرمندہ و نامراد ہوکر دریائے آمو پار کرکے صدمے سے دو چار تھکے ہارے اپنے وطن کو لوٹ گئیں ۔ اپریل1978ء میں ”خلقیوں“ نے افغان صدر سردار داؤد کو معہ پورے خاندان تہ تیغ کیا ان کی نسل مٹادی اور افغانستان میں سوشلسٹ انقلاب کانعرہ مستانہ بلند کیا اس کے ساتھ انقلابیوں نے کشت و خون کا بازار گرم کردیا کابل کی گلیاں خون سے لالہ زار کردی گئیں اس انقلاب کے لئے روس نواز افغان جماعتیں مری جارہی تھیں۔ تعلیمی اداروں میں کمیونزم کی تبلیغ کی جاتی تھی حتیٰ کہ ان گمراہ افغان کمیونسٹوں کے اجتماعات میں جب کوئی دوشیزہ خطاب کے جوہر دکھانے اسٹیج پر آتی تو سامع نوجوانوں کو جوش ولولہ دیتیں اور ان کی دل لبھائی کے لئے کہتیں کہ جو نوجوان کمیونسٹ انقلاب کا نقیب ثابت ہوگا تو یہ سرخ رسیلے ہونٹ اس کا انعام ہوگا۔ انجام کار انقلابی آپس میں دست و گریبان ہوگئے ، اقتدار کی رسی کشی میں ایک دوسرے کا قتل عام کیا گیا نور محمد ترہ کئی جو اس فساد کے سرخیل کے طور پر نمودار ہوا اس مناقشہ میں قتل کردیئے گئے اور یہ کار خیر کسی جہادی تنظیم نے نہیں کیا ان دنوں تو انقلابی ایک دوسرے کے خون کے پیاسے تھے جہاد اور مزاحمت دور دور تک دکھائی نہیں دے رہی تھی بلکہ فسادیوں کی چپقلش جاری تھی نور محمد تروہ کئی کو حفیظ اللہ امین نے راستے سے ہٹادیا اسی طرح حفیظ اللہ امین بھی ابد کی گہری نیند سلادیئے گئے ۔ کہا کرتے تھے کہ افغانستان میں موروثی سیاست کا خاتمہ کردیا گیا ، مذہبی انتہاء پسندی کی گنجائش نہیں رہی دقیانوس نظام کی بجائے مساوات کا نظام آچکا ہے حیرانگی کی بات ہے کہ سویت یونین کے یہ خدمت گزار ایک دوسرے پر ایجنٹ کے الزامات بھی لگاتے تھے اس ضمن میں حفیظ اللہ امین کو امریکی سی آئی کارنددہ کہا جاتا تھا۔ افغانستان میں فساد اور غیر یقینی حالات کا خشت اول انہی حضرات نے رکھا پھر ہو ایہ ہے کہ حفیظ اللہ امین کے بعد ببرک کارمل روسی ٹینکوں پر سوار دار الخلافہ کابل میں داخل ہوا۔ نور محمد ترہ کئی اور ڈاکٹر نجیب اللہ کی حکومت تک سرحد پار سے لوگ اس کمزور اور بے معنی انقلاب کے لئے مرے جارہے تھے انہیں اچھی طرح ادراک تھا کہ افغان معاشرے میں ایسی کوئی بھی تبدیلی جس کی بنیاد ترک مذہب یا مذہب بیزاری پر ہو قبول نہیں کی جائے گی ، ان کو تاہ چشم ٹولوں کو فقط اس خواہش اور امید نے حصار میں لے رکھا تھا کہ شاید کسی طرح افغانستان سے مذہب کا خاتمہ ہو حالانکہ ایسا ہو نہیں سکتا بلکہ کل کی طرح آج بھی نا ممکن ہے
۔افغانستان کی تاریخ گواہ ہے کہ جب بھی کسی حملہ آور یا قابض قوت کا مقابلہ کیا گیا ہے تو وہ دینی حمیت کی بنیاد پر ہوسکا ہے ۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ پہلی افغان جنگ1849ء تا1842ء اور دوسری انگریز افغان جنگ 1878ء اسی طرح تیسری بار انگریزو ں کے ساتھ1919ء کی جنگ میں مذہب کا عنصر بہ درجہ اتم موجود تھا،یہ جنگیں افغان یا پشتون قومیت کی بنیاد پر نہیں لڑی گئی تھیں بلکہ انگریز کے خلاف جہاد کا علم بلند ہوا اس استقامت عزم اور حوصلے کی بنیاد پر انگریز زیادہ دیر اپنا قبضہ جمانے میں بار بار ناکام رہے، یقین سے کہا جاسکتا ہے کہ اگر روسیوں کے خلاف جہاد نہ ہوتا اور مخالفت میں فقط نیشنلزم میدان میں ہوتی تو نہ صرف روسی اور اس کے ماتحت آسانی سے حکومت کرتے بلکہ گرم پانیوں تک آنکھوں میں جو خواب سجا رکھے تھے ،ممکن تھا کہ وہ بھی شرمندہ تعمیر ہوتا ،امریکہ تو کیا ،چاہے پوری دنیا کی کمک اور حمایت روس کی مخالفت میں دستیاب ہوتی پھر بھی روس کے ایک سپاہی کا بال بھیگا نہ ہوتا ۔ یہ ایک تاریخی حقیقت ہے جس کا ادراک لبرل اور سیکولر افراد کو ہونا چاہیئے ۔ یہی وجہ تھی کہ ڈاکٹر نجیب اللہ نے اپنا قبلہ تبدیل کرنے کی سعی کی اور جا بجا اپنی تقریروں میں قرآن وحدیث سے حوالے دیتا رہا گویا افغان عوام اور مجاہدین کو یہ باور کرانا تھا کہ کمیونزم پر ایمان اگر تھا تو وہ نور محمد ترہ کئی ، حفیظ اللہ امین اور ببرکارمل کو تھا ، جو اب نہیں رہیں اور کابل کے قصر صدارت میں اب ایک کمیونزم بیزار صدر براجمان ہے ۔ سوچ اور حیرت کی بات ہے کہ ایک پرامن افغان حکومت کو جب نور محمد ترہ کئی نے توپوں اور ٹینکوں کے گولوں سے بے قرار کیا تو کسی نے اس کی مذمت کی اور نہ ہی اس وقت کوئی خفگی اور ناراضگی کا اظہار ہوا ،جب سردار داؤد کے پورے خاندان کو نسیت و نابود کردیاگیا تواس عمل پر اس لئے خاموشی کا مظاہرہ کیا گیا کہ انقلاب کے لئے بسا اوقات اس نوعیت کی سفاکی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہوتا ہے یعنی نیکی پھیلانے کے لئے اگر خون بہایا جائے تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں ۔چنانچہ اس عمل کا ارتکاب جب طالبان سے سرزد ہوا جنہوں کابل پر قبضہ کے بعد ڈاکٹر نجیب اللہ کو لٹکایا تو پاکستان میں موجود خیر خواہوں نے ہا ہا کار مچادی ۔ طالبان کے اس اقدام کو درندگی دہشت اور وحشت سے معمور عمل قرار دیا۔ ڈاکٹر نجیب اللہ کی غائبانہ نماز جنازہ ادا کی گئی ۔حالانکہ اگر دیکھا جائے تو طالبان نے بھی انقلاب برپا کردیا اور وہ بھی فساد کے دور میں ،جب ہر طرف انارکی ، بدامنی ،لوٹ مار اور مردم کشی کا بازار گرم تھا، جنگی کمانڈروں کی بد معاشی کا چلن عام تھا ،کسی کی مال و عزت محفوظ نہ تھی ، صرف اسپین بولدک سے قندھار شہر تک129 ناکے جنگی کمانڈروں نے قائم کر رکھے تھے اور ان تمام مقامات پر ٹرانسپورٹروں کو ٹیکس ادا کرنا پڑتا تھا ۔ایسے میں خاک نشین طالبان نے اگر اصلاح کا بیڑہ اٹھایا تو فساد کے اس عالم میں یہ انقلاب ہی تھا جو طالبان نے برپاد کردیا ۔ اگر نور محمد ترہ کئی کے نزدیک سردار داؤد کو قتل کرنا ان کے انقلاب کے لئے لازم تھا تو ڈاکٹر نجیب اللہ کو قتل کرکے طالبان نے کونسا برا کام کیا ؟۔ دراصل ڈاکٹر نجیب اللہ بھی تو خلقیوں اور پرچمیوں کے نظام فساد کا، کارندہ ہی تھا ، یہی نہیں نور محمد ترہ کئی نے سینکڑوں ہزاروں افراد کو محض اس لئے تہہ تیغ کیا کہ وہ ان کے انقلاب کے مخالف تھے ، ان سے مزاحمت کا خدشہ تھا ۔ سردار داؤد بھی مخالفین پر ہاتھ صاف کرتے رہے۔ معنی کہ سردار داؤد کو بھی بطور خاص مذہبی جماعتوں سے پر خاش تھی ، وہ خوف میں مبتلا تھے گویا باقی تمام شرو فساد جائز ، بس مذہبی لوگوں کو بر سر اقتدار نہیں آنا چاہیئے ۔ بات یہ ہے کہ افغانستان کو مطلوب امن طالبان نے فراہم کیا ،امریکہ اور نیٹو ممالک کی90ہزار عساکر جدید اسلحہ سے لیس ہوکر بھی افغانستان کو تبدیل نہیں کرسکی ہیں ۔ امریکہ کی تیس ہزار افواج بھی آتی ہیں تو حالات جوں کے توں رہیں گے۔ دریا آمو کو عبور کرتے ہوئے روسی افواج بڑی ہشاش بشاش تھیں تاہم جب اسی دریا آمو کی سمت روس کی شکستہ فوج افغانستان سے گام گام نکل رہی تھی تو دنیا کو ان پر ترس آرہا تھا اور اور روسیوں کا انجام تاریخ کا عبرتناک باب ثابت ہوا۔ یہی شرمندگی انگریز استعمار کے نامہ اعمال میں افغان حریت پسندوں نے نوشتہ کردیا ہے بعینہ امریکہ اور اس کے جنگی یارو(نیٹو ممالک) کے ساتھ ہونے والا ہے ۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ روسیوں کے جانے کے بعد مجاہدین کی حکومت جیسی تیسی تھی پاکستان کی خیر خواہ تھی۔ مابعد1994 سے8اکتوبر2001ء تک طالبان دورحکومت میں ،افغانستان پاکستان دوست ملک تھا اور یہ جملہ بطور خاص طالبان کے چند سالہ دور اقتدار پر صادق آتا ہے کہ دو قالب یک جان ،پاکستان ،افغانستان!