Friday, August 7, 2009

بلوچستان میں اساتذہ کا قتل عام ‘ حکومت کی نا اہلی اور انسانی حقوق کے علمبرداروں کی خاموشی



(یہ تحریر جولائی کے آخری ہفتے میں لکھی تھی تاہم مصروفیت کی وجہ سے بلاگ پر پیش نہ کرسکا ۔ )
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان پیپلز پارٹی کو جب 18فروری2008ء کے عام انتخابات میں کامیابی نصیب ہوئی تو اس کے بعد پی پی پی کے شریک چیئرمین نے پرویز مشرف کو بازعزت طریقے سے ایوان صدر سے رخصت کر دیا اور خود صدارت کے منصب اعلیٰ پر بیٹھ گئے اللہ انہیں بار بار عہدہ صدارت اور وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے کی توفیق عطاء کریں لیکن اس دعا کے ساتھ کہ یہ کلیدی عہدے ملک پاکستان کے شہریوں کے خون کے بدلے نصیب نہ ہوں جیسا کہ فاٹا مالا کنڈ ڈویژن مکیں امکریکی میزبانوں کی ہدایت پر کیا جا رہا ہے عوامی حکومت کو عوام کی خواہشات کو مقدم رکھنا چاہئے اور عوام کے سامنے جوابدہ ہونا چاہیئے افسوس ایسا ہو نہیں رہا یہاں مطلق تابعداری بارک حسین اوباما ، رچرڈ ہالبروک اور ہلری کلٹن کی ہورہی ہے جو پاکستان کے حدود میں ڈرون حملوں کی کامیابی پر نازاں ہیں ، ہیلری کلنٹن نے صاف لفظوں میں واضح کر دیا کہ نائب الیون کے واقعہ کے ذمہ داران پاکستان میں موجود ہیں لہٰذا اب آصف علی زرداری اور ان کے معتمد ین کی نہیں چلی گی اگر امریکہ اپنے شہریوں کے تحفظ اور عظیم ا مریکہ کی سلامتی کے لئے ان ا افرا دکے خلاف کار روائی مزید جاری رکھے گا مملکت پاکستان کے سند اقتدار پر بیٹھے 16کروڑ عوام کے نمائندے عمدہ طریقے سے تعاون نہ بھی کریں تب بھی امریکہ بہادر کو کسی کی محتاجی اور کمک کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ بے خبر بھی نہیں ہے انہیں پاکستان کے چپہ چپہ سے واقفیت اور آگاہی حاصل ہے تاہم پھربھی حکمران طبقہ پابند ہے کہ وہ اپنے آقا کی جی حضوری میں کسی تساہل، کوتاہی اور نا فرمانی کے ارتکاب کا مظاہرہ نہ کریں ۔ہاں تو2008کے عام انتخابات کے مابعد جناب آصف علی زرداری نے بلوچستان کے عوام سے پرویز مشرف دور کی زیادتیاں تو کجا انہوں نے گزشتہ ساٹھ سالہ بدسلکیوں اور امتیازی رویوں و اقدامات پر علی اعلان معافی مانگ لی شاید اس میں پاکستان کے پہلے سول مارشل ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کا دور جمہوریت بھی شامل ہے کیونکہ بلوچ یہ کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی جمہوری حکومت نے پہلے پہل سردار عطاء اللہ مینگل کی حکومت 9ماہ بعد بیک جنبش قلم ختم کر دی تھی ۔ اس کے بعد سال 1973-74 میں ملٹری آپریشن کا آغاز کر دیا تھا ، ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کی وزارت عظمیٰ میں بلوچستان میں کار روائی کا تذکرہ جب بلوچ بزرگوں اور سیاستدان سے سنتے ہیں تو یہ روادار ہو بہو پرویز مشرف کی دور حکمرانی کے حالات کا نقشہ پیش کرتا ہے گویا پاکستان کے پہلے سول مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر اور 12اکتوبر1999 ء کو نواز شریف حکومت پر ’’کودتائ‘‘کرنے والے فوجی آمرپرویز مشرف کی اس خاص نوعیت کی حکمت عملی میں مماثلت پائی جاتی ہے بہر کیف صدر مملکت آصف علی زرداری معافی مانگ چکے ہیں مفاہمت اور مصالحت کا مژدہ سنا چکے ہیں قوم چشم بہ راہ ہے کہ امن ، خوشحالی ، اعتماد ارو عدم امتیاز کا دور کب شروع ہو گا؟ ویسے تو پیپلز پارٹی کی حکومت بننے کے بعد بہت جلد خوشخبری سننے کا اعلان کیا گیا لیکن عوام آج تک وہ خوشخبری سننے کے لئے ہمہ تن گوش ہیں ۔ وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے حال ہی میں پھر تکرارواعادہ کیاکہ بلوچستان کے حوالے سے حکومت دو سے چار ہفتوں میں قوم کو خوشخبری دے گی۔ قوم چار ہفتے کیا مزید دس ہفتے انتظار کرے گی بس حکومت خوشخبری سنادے کیونکہ بلوچستان کی صورتحال تشویشناک ہے ۔ حالت یہ ہوگئی کہ آئے دن معصوم و نہتے شہریوں کو گولیاں مار کر موت کی نیند سلادیا جاتا ہے صوبائی حکومت نے شہریوں کی جان و مال کے تحفظ کے لئے شہر کو فرنٹیئر کور کے کنٹرول میں تو دیدیا مگر اس کے باوجود شہریوں کا خون نا حق بہہ رہا ہے ۔ یہ واضح ہو کہ حکومت عوام ہی کو جوابدہ ہے ، لوگ نہ بھارت و افغانستان اور نہ ہی بلوچ مزاحمت کاروں سے حساب لیں گے بلکہ اقتدار کے خوبصوت اور پرآسائش ایوانوں میں بیٹھے بزعم خیش عوامی نمائندوں کے گریبانوں میں ہاتھ ڈالیں گے کیونکہ بھارت اورافغانستان کا پورا ملبہ ڈال کر تو حکومت پوری صورتحال سے بری الذمہ ہوجائے گی ۔آخر حکومت کے ذمے بھی تو کرنے کے کام ہیں وہ کام اور فرائض پورے کیوں نہیں کئے جاتے ؟۔یہ حضرات تو حکمرانی کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر انتقام کی بھینٹ بے گناہ شہری بن رہے ہیں ، کوئٹہ شہر کا امن غارت ہو چکا ہے ، کاروبار تباہ ہو چکا ہے ، ٹارگٹ کلنگ کے واقعات میں انسانیت کے دشمن قوم کا قیمتی سرمایہ ضائع کر رہے ہیں یعنی اساتذہ قتل ہورہے ہیں کوئی شخص محفوظ نہیں چھپے چہرے جہاں چاہیں گولیوں سے کسی کا سینہ چھلنی کر دیتے ہیں گولی مار کربیجا اڑ ادیتے ہیں ان مظلوموں کی اہل خانہ حکومت وقت سے تحفظ کا سوال کرتے ہیں اور پوچھتے ہیں کہ تمہارے کرتوتوں کی سزا انہیں کیوں دی جا رہی ہے ؟ ۔ کیا پروفیسر غلام سرور کی موت غیر معمولی واقعہ نہیں ہے ؟ پھر کیوں حکمران ایک شریف و درویش معلم کی شہادت پر بے قرار نہیں ہوتے ۔ پروفیسر غلام سرور سریاب پر واقعہ گورنمنٹ ڈگری کالج میں کمیسٹری پڑ ھاتے تھے ان کو نامعلوم افراد نے اپنے گھر کی چوکھٹ پر فائرنگ کر کے قتل کر دیا یہ واقعہ24جولائی کی رات نو بجے پیش آیا ۔ پروفیسر غلام سرور کا آبائی علاقہ رحیم یار خان ہے جس کی میت اگلے روز آبائی قبرستان میں تدفین کے لئے روانہ کر دی گئی۔ پروفیسر اینڈ لیکچرز ایسوسی ایشن نے اس المناک وقعہ کے خلاف 24 جولائی کو صوبے بھر میں کالجوں میں درس و تدریس کے عمل کا ایک روز کے لئے مقاطعہ کیا تین روزہ سوگ کا اعلان کیا۔ پروفیسر اینڈ لیکچرز ایسوسی ایشن کے صدر پوفیسر محمد نواز سرمو نے اپنے رد عمل میں کہا کہ ان کا تعلق ایک مقدس پیشے سے ہے اور کوئی استاد خود کو بچوں سے دور نہیں کرسکتا ہے کہ یہی ہماری زندگی کا مشن ہے ، ان کا کہنا تھا کہ بے حم لوگ ان کو مار رہے ہیں جو ان کے بچوں کو زیر تعلیم سے آراستہ کرنے والے ہیں ۔ بلوچستان ریذیڈنشل کالج خضدار بند ہو چکا ہے وہاں کوئی معلم جانے کو تیار نہیں ہے ، کالج کے طلباء تدریس کا آغاز چاہتے ہیں بے چارے احتجاج کر رہے ہیں ۔ خضدا رمیں جون کے وسط میں خضدار ریزیڈنشل کالج کے وائس پرنسپل خالد محمود بٹ کے قتل کا واقعہ پیش آیا تھا ، جون کے پہلے ہفتے ضلع مستونگ میں ای ڈی او ایجوکیشن اور پائلٹ سکول کے پرنسپل جاوید احمد لودھی کو مارا گیا ۔23جولائی کو سریاب روڈ پر واقع سریاب مل میں گورنمنٹ بوائز ہائی سکول کے وائس پرنسپل حاجی محسن انصاری صبح ا سکول کے گیٹ کے سامنے نامعلوم افراد کی فائرنگ سے جاں بحق ہو ا۔ا س سے قبل 22اپریل2008کو بلوچستان یونیورسٹی کے پرو وائس چانسلر پروفیسر صفدر کیانی کو یونیورسٹی کے قریب اپنے گھر کے ساتھ فائرنگ کر کے قتل کر دیا گیا تھا۔ان میں سے اکثر واقعات کی ذمہ داری بلوچ لبریشن آرمی نے قبول کی ہے ۔ بی ایل کے ترجمان کا یہ کہنا ہے کہ ڈگری کالج کے مقتول پرنسپل غلام سرور بلوچ قومی ترانہ کی راہ میں رکاوٹ بن رہے تھے اس لئے تمام اساتذہ کو یہ تنبہ کرتے ہیں کہ وہ بلوچ قومی ترانہ کی راہ میں رکاوٹ بننے سے گریز کریں ورنہ ان کا انجام غلام سرور جیسا ہو گا۔ یہ بھیانک سلسلہ مزید چلنے کے امکانات روشن ہیں ۔ سیاسی جماعتیں راست اقدام اٹھانے سے بوجہ عاجز ہیں ۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے گویا سرے سے کوئٹہ شہر اور صوبے کے دیگر علاقوں میں ٹارگٹ کلنگ اور انسانی حقوق کی بد ترین پامالی پر مطلق خاموشی اختیار کر رکھی ہیں ۔ انسانی حقوق کے نام نہاد علمبردار بشمول عاصمہ جہانگیر اینڈ کمپنی نری مناقفت کا عملی مظاہرہ کر رہی ہیں ذرائع ابلاغ پر گھنٹوں لفاظی فسق، منافقت اور ڈینگے مارنے والا یہ ٹولہ بے گناہ اور معّصوم لوگوں کے قتل پر کیوں خاموش ہے ؟ انہوں نے لبوں کو سی رکھا ہے ۔ یہ طبقہ امتیاز اور طبقاتی تقسیم کے لئے کوشاں ہے دراصل ان کا مشن بیرونی ایجنڈے پر عملدرآمد کے لئے ابلاغ کا کام کرنا ہے ۔ یقینی بات ہے کہ جو مر رہے ہیں ان کا مقدمہ ان کے سر پرستوں کے لئے غیر ضروری ہے ۔ عاصمہ جہانگیر ، کوئی ربانی کوئی برنی بھلے منافقت کا لبادہ اوڑ ھ کر ہی سہی محض ان بیواؤں اور یتیموں کو دلاسہ دینے تو آجائیں ۔ ہاں جماعت اسلامی بلوچستان کے ڈپٹی سیکرٹری جنرل زاہد اختر نے تو اپنی دانست میں عقدہ یہ کہہ کر حل کر دیا کہ کوئٹہ اور صوبے کے دیگر علاقوں میں آباد کاروں کو سرکاری ایجنسیاں مار رہی ہیں گویا زاہد اختر نے انسانی حقوق والوں کا بھی کام آسان کر دیا ہے انسانی حقوق والے بھی یہی رپورٹ ضبط تحریر کریں کہ آباد کاروں کے قتل کے واقعات میں سرکار کے ادارے ملوث ہیں ۔ دکھی خاندانوں سے ڈرامہ باز و مال متاع کے حریص حقوق انسانی والے فقط اظہار ہمدردی کریں حکومت سے تو کچھ ہو نہیں پا رہا معافی مانگ کر بھی بے شرمی سے تماشا دیکھ رہی ہے ، یاد رہے کہ بلوچستان کی صورتحال آصف علی زرداری کی حکومت کیلئے کلنگ کا ٹیکہ ہے پیپلز پارٹی کے نامہ اعمال میں دوسری بار آپریشن اور صوبائی حقوق کی پامالی لکھی جا چکی ہے ۔ اگر یہ سلسلہ پرویز مشروف کا شروع کیا ہوا ہے تو اس برائی اور خرابی کو پیپلز پارٹی دور کیوں نہیں کر رہی ؟حالات کیوں جوں کے توں ہیں ؟بہتری اور بناؤ کے آثار و امکانات دکھائی نہیں دے رہیں صاف مطلب یہ ہوا کہ حکومت چاہتی ہے کہ لوگ مسلح مزاحمت کرتے رہیں اورآزادی کا نعرہ بلند کر کے قومی پرچم کی بے حرمتی کرتے رہیں ۔
وفاقی وزیر داخلہ کا کہنا ہے کہ افغان صدر (کٹھ پتلی) حامد کرزئی نے انہیں بلوچ جنگجوؤں کے تربیتی کیمپ بند کرانے کی یقین دہانی کرادی ہے ۔صاحب! افغانستان میں اگر بلوچ جنگجوؤں کے تربیتی مراکز نہیں بھی ہیں تو افغان حکومت اس نوع کے مراکز قائم کرنے کا ارادہ رکھتی ہے لہٰذا ضرورت اس حقیقت کے ادراک کا ہے کہ ملک کے اندر ہی وہ اسباب پیدا کئے جائیں کہ کسی کو کسی عسکری تربیت کے حصول کی ضرورت ہی نہ پڑ ے ۔ سیدھا اور صاف راستہ یہ ہے صوبائی خود مختاری کے معروف فارمولے پر عمل کیا جائے مشکلات اور مسائل خود بخود حل ہوجائیں گے ۔
ہفتہ رفتہ کئی ناخوشگوار واقعات رونما ہو چکے ہیں ۔25جولائی کو مشرقی بائی پاس پر غیر ملکی مشروب ساز کمپنی پیپسی کے منیجر محمد طاہر میمن اور کمپنی کے ایڈمن آفیسر علی محمد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے ۔ اسی روز منو جان پر پولیس موبائل پر دستی بم حملہ ہوا واقعہ میں ڈرائیور اور دو بچے زخمی ہوئے ۔اس واقعہ کے چند گھنٹوں بعد جیل روڈ پر نامعلوم افراد نے فائرنگ کر کے ایک سیکورٹی گارڈ کو ہلاک کیا ۔اگلے روز ( 26جولائی کو) جوائنٹ روڈ پر اتوار بازار پر چاول فروخت کرنے والے افراد پر نامعلوم لوگوں نے فائرنگ کی جس کے نتیجے میں ایک شخص ہلاک اور تین زخمی ہوگئے ۔پیش ازیں (21جولائی )نامعلوم افراد نے بلدیہ پلازہ سے سٹی تھانہ پر دستی بم سے حملہ کیا جو تھانے سے ملحق مارکیٹ میں گر کر پھٹا جس سے دکان میں موجودو تین خواتین اور مالک دکان زخمی ہوا ۔اسی روز دوپہر کے وقت کوئٹہ کے معروف تجارتی مرکز لیاقت بازار میں ایک چاٹ کی دکان میں بم دھماکے کا پیش آیا جو خواتین نے وہاں رکھ دیا تھا اس دھماکے میں
دو افراد زخمی ہوگئے تھے ۔
کیا حکومت اب بھی ہوش کے ناخن نہیں لے گی ؟